زرعی شعبہ : حالات ِحاضرہ

 اس وقت زراعت کاشعبہ کئی وجوہات کی بناءپر بدحالی کا شکار ہے ، نمبر ایک موسمیاتی اثرات کی وجہ سے فصلوں اور باغات کا نقصان ہو رہا ہے۔ وہ سرسبز علاقے جو چارہ گاہوں کے لئے مشہور تھے‘ وہاں زیادہ اور بے ترتیب بارشوں کے معمولات دیکھنے میں آ رہے ہیں اور دوسری وجہ یہ ہے کہ کسی بھی فصل کی پیداوار لاگت میں اِس قدر اضافہ ہو چکا ہے کہ اب فصل پر اُٹھنے والے بنیادی اخراجات بھی وصول ہو جائیں تو کاشتکار شکر کرتے ہیں کیونکہ کھیت سے منڈیوں تک سبزی یا پھل پہنچانے کے اخراجات بھی اِس حد تک بڑھ گئے ہیں کہ ہر کاشتکار کے لئے ممکن نہیں کہ وہ اپنی محنت کی اچھی قیمت وصول کرنے کے لئے کسی من پسند منڈی کا انتخاب کر سکے۔ اگر حکومت کاشتکاروں کو ’آن لائن‘ فروخت کے نیٹ ورک سے جوڑ دے اور اِس سلسلے میں ٹیکنالوجی کی مصنوعی ذہانت سے استفادہ کیا جائے تو زرعی پیداوار کی اچھی قیمت مل سکتی ہے۔ شہری علاقوں میں رہنے والے خالص دودھ‘ دہی‘ مکھن‘ دیسی گھی‘ دیسی مرغی اور دیسی انڈوں کے لئے کوئی سی بھی قیمت ادا کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن اگر کاشتکاروں کو صارفین سے بذریعہ ٹیکنالوجی متصل کر دیا جائے تو حقیقی زرعی انقلاب آ سکتا ہے۔ اِس سلسلے میں ضمنی مگر اہم بات یہ بھی ہے کہ زرعی پیداوار سے مصنوعات کی تیاری (ویلیو ایڈیشن) کے ذریعے بھی زراعت کو منافع بخش بنایا جا سکتا ہے اور اِس سلسلے میں جمہوری اسلامی ایران کی مثال موجود ہے جو عالمی اقتصادی پابندیوں کے باوجود اپنے ہاں زرعی اجناس کو ڈبوں میں بند کر کے بھی برآمد (فروخت) کرتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ٹماٹروں کی بجائے اِس کا گودا (ٹومیٹو پیسٹ اور کیچ اَپ) ڈبوں میں بند کر کے فروخت کیا جائے تو اِس سے نہ صرف پیداوار موسمی اثرات کے باعث خرابی یا ملاوٹ سے محفوظ رہتی ہے بلکہ اِس کی ’شیلف لائف‘ بھی بڑھ جاتی ہے۔ پاکستان میں دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ بہتر آب و ہوا اور زرخیز مٹی کی صورت وسائل موجود ہیں بلکہ پاکستان کے مختلف حصوں میں بیک وقت چار موسم ملتے ہیں۔ اگر ایک طرف جیکب آباد ملک کا گرم ترین علاقہ ہے اور اِس سے متصل پٹی سے موسم گرما کی فصلیں اور پھل حاصل ہوتے ہیں تو دوسری طرف برف سے ڈھکے پہاڑ اور اُن کی یخ بستہ جنت نظیر وادیاں کے قدرتی ماحول میں سبزی اور پھل کی لذت و غذائیت کا ثانی نہیں ملتا لیکن اِن سبھی ترقیاتی امکانات سے فائدہ اُٹھانے کے لئے ضروری ہے کہ حکومت چھوٹے پیمانے پر زراعت کو سہارا دے اور اِس کی خاطرخواہ سرپرستی کرے۔ زرعی شعبے کے حالات حاضرہ یہ ہیں کہ اجناس کی سٹے بازی عروج پر ہے۔ غذائی خودکفالت عدم توازن کا شکار ہے۔ افراط زر کی وجہ سے پیدا ہونے والے بحران نے خوردنی اشیا کی دستیابی اور قیمتوں کو خراب کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جبکہ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق پاکستان میں کھاد کی ذخیرہ اندوزی ہو رہی ہے جس کی وجہ سے کھاد کی قیمتیں عالمی مارکیٹ سے بھی زیادہ ہو گئی ہیں اور یہ حیرت انگیز صورتحال ہے کہ قیمتوں کو کنٹرول کرنے والے اداروں کی نظریں کھاد کے شعبے میں سٹہ بازی اور ذخیرہ اندوزی کے ذریعے ناجائز منافع خوری کرنے والوں پر مرکوز نہیں ہیں۔ پاکستان میں کھاد کی اوسط قیمتیں بین الاقوامی قیمتوں کے ’برعکس‘ یعنی زیادہ ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر یوریا کی قیمتوں میں گزشتہ سال کے مقابلے میں پچیس فیصد کمی آئی ہے جبکہ گزشتہ سال ڈائی امونیم فاسفیٹ کی قیمتوں میں اُنچاس فیصد جیسی غیرمعمولی کمی دیکھنے میں آئی تھی۔ رواں سال کے اوائل میں ماہرین نے بھی سپلائی لائن کی توثیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کے پاس باقی ماندہ سال کے لئے وافر مقدار میں کھاد دستیاب ہوگی لیکن پھر بھی مقامی بازار میں کھاد کی اوسط قیمتوں میں مذکورہ مدت کے دوران دوگنا اضافہ ہوا ہے۔ یہاں تک کہ اگر ہم امریکی ڈالر کے مقابلے پاکستانی روپے کی قدر میں کمی کو بھی پیش نظر رکھیں تب بھی اندرون ملک تیار ہونے والی کھاد کی قیمتیں زیادہ ہیں۔ گزشتہ اگست کے بعد سے رواں ماہ (اگست دوہزارتئیس) میں کھاد کی عالمی مارکیٹ میں قیمتیں ڈالر کے تناسب سے پینتیس فیصد کمی ہونی چاہیئں لیکن ایسا نہیں ہے۔ المیہ ہے کہ جب عالمی مارکیٹ میں کسی چیز کی قیمت میں اضافہ ہوتا ہے تو اُس کا فوری اثر صارفین کو منتقل کر دیا جاتا ہے لیکن جب قیمتوں میں کمی ہوتی ہے تو اِسے نظرانداز کر دیا جاتا ہے اور چونکہ صارفین اُور بالخصوص کاشتکاروں کے حقوق کا تحفظ کرنے والی تنظیمیں موجود نہیں ہیں اِس لئے بہتری کی صورتحال بھی دکھائی نہیں دے رہی!پاکستان میں رواں سال کے دوران (مجموعی طور پر) 37 لاکھ ٹن کھاد کی پیداوار ہوئی جبکہ پاکستان کے پاس ساڑھے سترہ لاکھ ٹن کھاد کا ذخیرہ بھی موجود تھا اور کھاد کی ملکی ضرورت 65 لاکھ ٹن تھی۔ حکومتی اور مارکیٹ سے حاصل کردہ اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں اِس قدر کھاد موجود تھی کہ جس سے ایک سال کی ضروریات کا ہدف حاصل کیا جا سکتا لیکن 27 لاکھ ٹن کھاد زیادہ ہونے کے باوجود بھی 6 لاکھ ٹن کھاد درآمد کرنے کی اجازت دی گئی تاکہ کھاد کی کمی نہ ہونے دی جائے اور اِس کی وافر دستیابی یقینی بنائی جا سکے۔ کھاد کی قلت سے بچنے اور قیمتوں پر قابو پانے کے لئے ضرورت سے زیادہ کھاد ہونے یعنی سرپلس ذخیرے کے باوجود بھی مسئلہ حل نہیں ہوا اور اب کہا جا رہا ہے کہ ملک میں دو سے آٹھ لاکھ ٹن کھاد کی کمی ہے! جس کا مطلب ہے کہ ملک کے سبھی حصوں میں کھاد ایک جیسی وافر مقدار میں موجود نہیں اور کھاد کی فراہمی (سپلائی) متاثر ہے! کھاد کی فراہمی منظم کرنے اور اس کی فروخت کے نظام (مارکیٹ) کو شفاف طریقے سے چلانے میں اب تک کی ناکامی حیران کن ہے ۔قومی و صوبائی فیصلہ ساز متوجہ ہوں کہ پہلے ہی سے غذائی عدم تحفظ کا شکار ملک اور مہنگائی سے پریشان حال عوام کے لئے اگر زرعی اجناس اور پھل بھی دستیاب نہ ہوں تو اِس سے صرف زرعی معیشت و معاشرت ہی نہیں بلکہ شہری زندگی اور ملک کے 60 فیصد سے زائد وابستہ روزگار بھی متاثر ہوگا۔ اِس لئے خوراک کی سپلائی چین کے تحفظ کے لئے کھاد کو زیادہ سے زیادہ ریگولیٹ کیا جانا چاہئے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ ’زرعی پیداواری لاگت (ان پٹ) میں اضافہ نہ ہو یا کھاد کی کمی نہ ہو جس کی وجہ سے اجناس کی پیداوار کم ہوتی ہے اور اِس سے چھوٹے بڑے کاشتکاروں سمیت صارفین کا بھی نقصان ہے جنہیں مہنگے داموں زرعی اجناس خریدنا پڑ رہی ہیں۔