آزادی کی قدر و قیمت

ہم نے پاکستان کا 76 واں یوم آزادی قومی جوش و جذبے کے ساتھ منایا۔پورا ملک سبز ہلالی پرچموں سے لہلہا رہا تھا۔اس موقع پر قومی مذاکروں، ریلیوں اور تقاریب کا اہتمام کیا گیا جس میں آزادی کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی۔دوقومی نظریے کی نفی کرنے والوں سے اپنی انفرادیت منوانا اور الگ وطن کا حصول آسان نہیں تھا۔اس کے لئے لاکھوں جانوں کی قربانیاں بھی دینی پڑیں۔مگر جس نے وہ دور خود اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا تو اسے یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ ہم کس دور سے گزر کر یہاں تک پہنچے ہیں۔ایک واقعے سے اس حقیقت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔جو انگریز افسران برصغیر میں ملازمت کرنے کے بعد واپس انگلینڈ جاتے تو ان کو وہاں پبلک پوسٹ کی ذمہ داری نہیں دی جاتی تھی۔دلیل یہ تھی کہ وہ ایک غلام قوم پر حکومت کر کے آئے ہیں۔ان کے اطوار اور رویے تبدیل ہو چکے ہیں۔انگلستان میں انہیں اگرکوئی ذمہ داری دی گئی۔تو وہ آزاد انگریز قوم کو بھی اسی طرح ڈیل کریں گے۔ایک انگریز خاتون جس کا شوہر برطانوی دور میں پاک و ہند میں ڈپٹی کمشنر تھا۔خاتون نے زندگی کے کئی سال یہاں مختلف علاقوں میں گزارے واپسی پر اس نے اپنی یاداشتوں پر مبنی کتاب لکھی خاتون لکھتی ہیں کہ میرا شوہر جب ایک ضلع کا ڈپٹی کمشنر تھا اس وقت میرا بیٹا تقریبا ًچار سال کا اور بیٹی ایک سال کی تھی۔ڈپٹی کمشنر کو ملنے والی کئی ایکڑ پر محیط رہائش گاہ میں ہم رہتے تھے۔ڈی سی صاحب کے گھر اور خاندان کی خدمت گزاری پر کئی سو افراد مامور تھے۔روز پارٹیاں ہوتیں، شکار کے پرواگرام بنتے ضلع کے بڑے بڑے زمین دار ہمیں اپنے ہاں مدعو کرنا باعث فخر جانتے اور جس کے ہاں ہم چلے جاتے وہ اسے اپنی عزت افزائی سمجھتا۔ہمارے ٹھاٹھ ایسے تھے کہ برطانیہ میں ملکہ اور شاہی خاندان کو بھی مشکل سے ہی میسر تھے۔ٹرین کے سفر کے دوران نوابی ٹھاٹھ سے آراستہ ایک عالیشان ڈبہ ڈپٹی کمشنر کی فیملی کے لیے مخصوص ہوتا تھا۔جب ہم ٹرین میں سوار ہوتے توسفید لباس میں ملبوس ڈرائیور ہمارے سامنے دونوں ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو جاتااور سفر کے آغاز کی اجازت طلب کرتا۔اجازت ملنے پر ہی ٹرین چلنا شروع ہوتی۔ایک بار ایسا ہوا کہ ہم سفر کے لیے ٹرین میں بیٹھے تو روایت کے مطابق ڈرائیور نے حاضر ہو کر اجازت طلب کی۔اس سے پہلے کہ میں بولتی۔ میرا بیٹا بول اٹھا جس کا موڈ کسی وجہ سے خراب تھااس نے ڈرائیور سے کہا کہ ٹرین نہیں چلانی ڈرائیور نے حکم بجا لاتے ہوئے کہا کہ جو حکم چھوٹے صاحب کا۔کچھ دیر بعد صورتحال یہ تھی کہ سٹیشن ماسٹر سمیت پورا عملہ جمع ہو کر میرے چار سالہ بیٹے سے درخواست کر رہا تھابالآخربڑی مشکل سے میں نے کئی چاکلیٹس دینے کے وعدے پر بیٹے سے ٹرین چلوانے کی اجازت دلائی تو سفر کا آغاز ہوا۔چند ماہ بعد میں دوستوں اور رشتہ داروں سے ملنے واپس برطانیہ آئی ہم بذریعہ بحری جہاز لندن پہنچے۔ہماری منزل ویلز کی ایک کاﺅنٹی تھی جس کے لیے ہم نے ٹرین کا سفر کرنا تھا بیٹی اور بیٹے کو سٹیشن کے ایک بینچ پر بٹھا کر میں ٹکٹ لینے چلی گئی۔قطار طویل ہونے کی وجہ سے خاصی دیر ہو گئی جس پر بیٹے کا موڈ بہت خراب ہو گیاجب ہم ٹرین میں بیٹھے تو عالیشان کمپاﺅنڈ کے بجائے فرسٹ کلاس کی سیٹیں دیکھ کر بیٹا ایک بار پھر ناراضگی کا اظہار کرنے لگا۔وقت پر ٹرین نے وسل دے کر سفر شروع کیا تو بیٹے نے باقاعدہ چیخنا شروع کر دیاوہ زور زور سے کہہ رہا تھایہ کیسا ڈرائیور ہے،ہم سے اجازت لیے بغیر ہی اس نے ٹرین چلانا شروع کر دی ہے،میں پاپا سے کہہ کر اسے جوتے لگواﺅں گا میرے لیے اسے سمجھانامشکل ہو گیا کہ یہ اس کے باپ کا ضلع نہیں ایک آزاد ملک ہے یہاں ڈپٹی کمشنر جیسے تیسرے درجہ کے سرکاری ملازم تو کیا۔وزیر اعظم اور بادشاہ کو بھی یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ اپنی انا کی تسکین کے لیے عوام کو خوار کر سکے۔اس واقعے کے کئی پہلو قابل غور ہیں جو ہمیں دعوت دیتے ہیں کہ ہم اپنے موجودہ حالات اور اس دور کا موازنہ کریں جب وطن عزیز میں انگریز حکمران تھے۔اس واقع سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کس طرح انہوں نے یہاں پر تمام اصولوں کو پامال کیا اور بے قاعدگیوں کا ارتکاب کرتے تھے تاہم واپس برطانیہ جا کر وہ یکسر بدل جاتے اور یہ ثابت کر کے کہ محکوم لوگوں کے ساتھ ان کا رویہ کچھ اور ہوتا تھا جبکہ اپنے لوگوں کے ساتھ کچھ اور۔