فروغ سیاحت کے بنیادی لوازمات

محکمہ سیاحت خیبرپختونخوا نے انکشاف کیا ہے کہ رواں سال صوبے کی سیر کو آنے والے ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کی تعداد پچھلے سال کی نسبت کافی زیادہ رہی‘رپورٹ کے مطابق رواں سال مارچ سے پندرہ اگست تک 71لاکھ سے زائدسیاحوں نے خیبر پختو نخوا کے بالائی علاقوں کارُخ کیا‘ 25لاکھ 13ہزار797سیاحوں نے وادی ناران کاغان کارُخ کیا۔گلیات آنے والے سیاحوں کی تعداد 20لاکھ78ہزار575رہی ‘ 14لاکھ 53ہزار853سیاحوں نے سوات ،7لاکھ37ہزار497سیاحوں نے اپر دیرکا رُخ کیا۔3لاکھ 41ہزار سیاحوں نے لوئر چترال اور31ہزار111سیاحوں نے اپرچترال کی سیاحت کی‘سب سے زیادہ 763غیر ملکی سیاحوں نے لوئر چترال اور 471غیر ملکی سیاحوں نے اپرچترال کے دلفریب مقامات کے نظارے دیکھے‘ دیر اپرمیں198،مالم جبہ288،گلیات میں95جبکہ 273غیر ملکی سیاحوں نے کاغان ناران کا رُخ کیا۔گلیات، کاغان، ناران، کمراٹ اور دیگر سیاحتی مقامات ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کے لئے اس وجہ سے قابل رسائی ہیں کہ وہاں تک پہنچنے کےلئے ہموار اور پختہ سڑکیں موجود ہیں۔ وہاں سیاحوں کے ٹھہرنے کے مناسب انتظامات ہیں۔ انہیں انٹرنیٹ کی سہولت میسر ہے۔صوبے کے دیگر سیاحتی مقامات کے مقابلے میں چترال آنےوالے ملکی سیاحوں کی تعداد بہت کم رہی تاہم غیر ملکی سیاحوں کی چترال آمد کی بنیادی وجہ وہاں امن وامان کی تسلی بخش صورتحال کے علاوہ دلفریب سیاحتی مقامات ،قدرتی مناظر اور علاقے کی تہذیب وتمدن، ثقافتی ورثہ اور مہمان نوازی ہے۔ چترال میں سیاحت کی راہ میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ پختہ اور ہموار سڑک کی عدم دستیابی ہے۔ لواری ٹنل سے چترال تک نیم پختہ سڑک موجود ہے تاہم چترال سے بونی، مستوج، شندور اور بروغل تک جو سڑک پہلے موجود تھی اس پر کام شروع کیا گیا تھا تاہم بعض وجوہات کی بناءپر کام رُکا ہوا ہے اور ڈیڑھ سال گزرنے کے باوجودچترال بونی مستوج روڈ پرکام شروع نہیں ہوسکا۔ جس کی وجہ سے چترال سے بونی دو گھنٹے کا سفر پانچ گھنٹے میں طے ہوتا ہے‘ بروغل، یارخون، ریچ، لاسپور، کھوژ، بریپ، تریچ اور دیگر دور افتادہ علاقوں سے مریضوں کو چترال ہسپتال پہنچانا جان جوکھوں کا کام بن گیا ہے‘ راستے کچے اور ناہموار ہونے کی وجہ سے زیادہ تر مریض طبی امداد ملنے سے پہلے راستے میں ہی دم توڑ دیتے ہیں۔ ٹرانسپورٹروں نے سڑک خراب ہونے کی وجہ سے کرائے بھی بڑھا دیئے ہیں۔ رہی سہی کسی حالیہ سیلابوں نے پوری کردی۔جاپانی کہاوت ہے کہ ترقی ہموار سڑک پر چل کر آتی ہے۔ چترال جیسے علاقوں کی پسماندگی کی بنیادی وجہ ہموار سڑک کی سہولت کی عدم دستیابی ہے۔جس کی وجہ سے ملکی اور غیر ملکی سیاح بھی ان جنت نظیر وادیوں کی سیر سے کتراتے ہیں‘یہ محکمہ سیاحت کی بھی ذمہ داری ہے کہ اندرون اور بیرون ملک سے آنے والے شہروں کو صوبے کے سیاحتی مقامات تک محفوظ طریقے سے پہنچانے اور ان کو بنیادی سہولیات کی فراہمی کا بھی بندوبست کرے‘اگر صرف سیاحت کو دو تین سال تک ترجیحات میں سرفہرست رکھا گیا تو اس صوبے کی معیشت کو غیر معمولی فروغ مل سکتا ہے۔