گلوبل بائلنگ

گرمیاں ختم نہیں ہو رہیں۔ یورپ‘ ایشیا‘ شمالی امریکہ‘ اَفریقہ اور ایشیا کے بعض علاقے اس وقت شدید گرمی کی لپیٹ میں ہیں۔ برطانوی اخبار ’میل آن لائن‘ نے عالمی موسمیاتی اِدارے ’ڈبلیو ایم او‘ کے حوالے سے پورٹ شائع کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ رواں سال (دوہزارتیئس) کے ماہ¿ جولائی میں گرمی کے تمام سابقہ ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں جبکہ گرمی کی لہر اگست کا مہینہ گزارنے کے بعد ستمبر میں بھی جاری ہے اور جولائی میں پڑنے والی گرمی کی وجہ سے یہ تاریخ کا گرم ترین مہینہ قرار پایا ہے۔ دنیا نے اس سے قبل ایسی گرمی 1850ءکی دہائی میں دیکھی تھی۔ اس ہنگامی صورتحال پر اقوام متحدہ تنظیم بھی فکرمند ہے اور تنظیم کے سربراہ انتونیو گوتیرس نے دنیا پر واضح کیا ہے کہ ’گلوبل وارمنگ‘ کا دورختم ہونے کے بعد ’گلوبل بوائلنگ‘ کا دورشروع ہو چکا ہے یعنی دنیا اُبل رہی ہے۔ موسمیاتی علوم پر عبور رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ ”موسمیاتی شدت نے کروڑوں افراد کو متاثر کیا ہے اور اب تک ریکارڈ کئے گئے تیس گرم ترین دنوں میں سے اکیس دن جولائی کے شمار کئے جا چکے ہیں“ صرف گزشتہ بارہ سے اٹھارہ ہفتوں ہی کا اگر جائزہ لیا جائے تو ماحولیاتی تبدیلی کے نتیجے میں قدرتی آفات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ وسیع ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ سال دوہزارتیئس کے مارچ اور اپریل کے دوران دنیا کے کئی ممالک میں گرمی کی شدید لہر رہی۔ سمندری طوفانوں نے دنیا کو پریشان کر رکھا ہے اور جون‘ جولائی میں سیلاب نے شہروں کا رخ کر لیا۔ ماحولیاتی تبدیلی کی تباہ کاریوں کی نئی لہر نے خطے کو لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ہماری سرحدوں کی دوسری طرف یعنی بھارت اور افغانستان سے آنے والے سیلابوں نے پنجاب اور خیبر پختونخوا کو متاثر کرنا شروع کر دیا ہے۔ اُنتیس جولائی تک خیبرپختونخوامیں مون سون طوفانی بارشوں سے پندرہ افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ پچانوے مکانات کو نقصان پہنچا۔ کئی سڑکیں اور پل بھی سیلابی ریلوں میں بہہ گئے۔ بلوچستان میں مختلف واقعات میں خواتین اور بچوں سمیت دس افراد جاں بحق ہوئے۔ تین سو سے زائد مکانات تباہ ہوئے اور مواصلاتی نظام درہم برہم ہوگیا۔ بلوچستان کو سندھ اور پنجاب سے ملانے والی قومی شاہراہ بند کردی گئی۔ انٹرگورنمنٹل پینل آن کلائمٹ چینج (آئی پی سی سی) نے عالمی درجہ حرارت کی حدت ڈیڑھ سے دو ڈگری سینٹی گریڈ تک رکھنے کے لئے پیرس معاہدے کی سائنسی بنیاد فراہم کی تھی لیکن اس کے باوجود دنیا نے اس طرف توجہ نہیں دی۔ جس کے سنگین نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔ کم آمدنی والے دیگرممالک کی طرح پاکستان بھی ماضی میں طویل مدت تک موسمیاتی تبدیلیوں کی طرف خاطرخواہ توجہ نہ دے سکا۔ کلائمٹ چینج سے متعلق کمزور گورننس ایک طرف حتی کہ اس سے متاثرین کی امداد و بحالی کے لئے بروقت اقدامات بھی نہ کئے جا سکے اور نہ ہی ہمارے صاحبان اقتدار و اختیار ان نئے خطرات کو پالیسی گائیڈ لائنزیا فوری اقدامات میں ڈھال سکے ہیں۔ جس سے خطے میں پاکستان ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کا شکار واحد ملک نہیں رہا بلکہ ہمسایہ ممالک خصوصاً چین‘ بھارت اور افغانستان بھی گرمی کی شدید لہر اور سیلابوں ریلوں کی زد میں ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک بھی کلائمٹ چینج کے تباہ کن اثرات سے محفوظ نہیں اور یکساں تباہی کا شکار ہیں۔ جنوبی یورپ شدید ’ہیٹ ویو‘ کی لپیٹ میں ہے۔ امریکہ میں ریاست کیلیفورنیا‘ کینیڈا اورسائبیریا کے جنگلات میں لگنے والی آگ‘ براعظم اَفریقہ اورانتہائی مشرق میں واقع جزیرہ نما میں خشک سالی کے نئے ریکارڈ قائم ہو رہے ہیں تو ایسی صورت میں دانشمندی (بھلائی و بقا) اِسی میں ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کو سمجھا جائے اور اپنی زندگی کے مطابق ماحول کو ڈھالنے کی بجائے ماحول کے موافق معمولات زندگی اور ماحول دوست طرز زندگی اختیار کیا جائے۔