اندیش ہائے روز و شب : سنگین غلطیاں

زمانے کو بالعموم تین اَدوار (ماضی حال اور مستقبل) میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ یہ عمومی تصور یا نصابی تشریح اپنی جگہ درست لیکن کسی انسان کے لئے زمانے کی تعریف اُس کی عملی زندگی سے متعلق ہوتی ہے اور اِس سلسلے میں زیادہ جامع تشریح انگریزی زبان کے معروف رومانی شاعر ولیم ورڈز ورتھ نے کی تھی جنہوں نے زندگی کو تین ادوار ”سوچ‘ جدوجہد اور جستجو“ سے ماخوذ کرتے ہوئے کہا کہ ”انسان کا واسطہ ہمیشہ دوسروں سے زیادہ اپنے آپ سے رہتا ہے اور شعور رکھنے والوں کی دنیا اور ہوتی ہے جو بالعموم اِن سوالات (اندیش ہائے روز و شب) پر غور کرتے ہیں کہ وہ کیا تھا‘ وہ کیا ہے اور کیا ہو گا۔“ اُنہوں نے یہ بھی لکھا کہ ”ہمیں ماضی میں صرف اپنی ہی نہیں بلکہ گردوپیش میں رہنے والوں کی غلطیوں سے حاصل نتائج سے بھی سیکھنا چاہئے یعنی اُن واقعات کی معلوم تفصیلات اور نتائج پیش نظر رکھنے چاہیئں۔ ہمیں چاہئے کہ حال میں موجود مواقعوں سے فائدہ اُٹھائیں اور تیسرا یہ کہ مستقبل میں زیادہ بہتر زندگی کی جستجو (لگن) رہنی چاہئے۔“ زندگی اور شعوری زندگی کے درمیان فرق یہی ہے کہ کسی بھی صورت حالات کی وجہ سے افراتفری (جلدبازی) اور بوکھلاہٹ (بے صبری) کا شکار نہ ہوا جائے کیونکہ اِنہی دو حالتوں (جلد بازی اور بے صبری) کی وجہ سے اکثر و بیشتر نقصان اُٹھانا پڑتا ہے۔ آسٹریا میں مقیم معروف شاعر آفتاب حسین (پیدائش 1962ئ) نے کہا تھا کہ ”اِسی طرح کے شب و روز ہیں وہی دنیا : پرانی خاک پہ تعمیر ہے نئی دنیا .... میں اپنے آپ میں گم تھا مجھے خبر نہ ہوئی : گزر رہی تھی مجھے روندتی ہوئی دنیا .... ہر آدمی کو یہ دنیا بدل کے رکھ دے گی : بدل سکا نہ اگر اب بھی آدمی دنیا .... نئی ہوا کو مدد کے لئے پکارتی ہے : خود اپنی آگ میں جلتی ہوئی نئی دنیا .... میں جس حوالے سے دنیا پہ غور کرتا ہوں : اُسی طرح سے کبھی کاش‘ سوچتی دنیا .... میں اپنے اصل کی جانب رواں دواں ہوں اور : بلا رہی ہے مسلسل مجھے مری دنیا۔“ملک کے خراب معاشی حالات کی وجہ سے بیرون ملک جانے والے خواہشمندوں کی تعداد میں غیرمعمولی اضافہ ہو رہا ہے اور بالخصوص نوجوان طبقے میں اپنے معاشی مستقبل سے متعلق غیریقینی نے صورتحال کو مزید گھمبیر بنا دیا ہے جس سے ’ناجائز فائدہ اُٹھانے والوں نے اندھیرنگری مچا رکھی ہے اور کھلے عام ہونے والی بے قاعدگیوں جن میں سادہ لوح افراد کو لوٹا جا رہا ہے کے بارے میں کوئی بھی پوچھنے والا نہیں۔ ایک ویزے کی صرف درخواست جمع کروانے کے بھی دو سے ڈھائی لاکھ روپے فیس وصول کی جا رہی ہے حالانکہ یہ کام تھوڑا سا پڑھا لکھا شخص باآسانی خود بھی کر سکتا ہے جبکہ انٹرنیٹ کے ذریعے ہر قسم کی بیشتر اور تفصیلی معلومات ’آن لائن دستیاب‘ ہیں۔حال ہی میں سوشل میڈیا پر ’کینیڈا‘ کی ایمیگریشن اور ویزے کے حصول سے متعلق افواہیں ہاتھوں ہاتھ شیئر (وائرل) ہو رہی ہیں جن کا لب لباب یہ ہے کہ ”یکم ستمبر“ سے کینیڈا نے اپنی ویزا پالیسی پر نظرثانی کی ہے حالانکہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ کینیڈا کی شہریت یا کینیڈا کا ویزا حاصل کرنے کے لئے ڈھائی سو سے زیادہ مختلف سہولیات کا پہلے ہی اعلان ہو چکا ہے اور اِن میں کینیڈا کی صوبائی اور وفاقی حکومتوں کی جانب سے الگ الگ سہولیات کا اعلان کیا گیا ہے۔ کینیڈا جانے والے خواہشمند افراد کے لئے ”پہلا مشورہ“ یہ ہے کہ کینیڈین حکومت کی جانب سے یہ بات لازم نہیں کہ کسی بھی قسم کے ویزے یا کاروبار یا شہریت حاصل کرنے والوں کو لازماً کسی نہ کسی مشیر‘ وکیل‘ ترجمان یا سہولت کار کی خدمات حاصل کرنا پڑیں لیکن چونکہ یہ کام درجنوں دستاویزات میں دیئے گئے درجنوں سوالات کے جوابات دینے سے متعلق ہوتا ہے اور وقتاً فوقتاً مختلف کوائف کو ثابت کرنے کے لئے دستاویزی ثبوت بھی پیش کرنا ہوتے ہیں اِس لئے بہتر سمجھا جاتا ہے کہ کسی نہ کسی شخص یا مستند ادارے کی خدمات حاصل کی جائیں اور اِس کام کے لئے کینیڈین حکومت نے وکالت یا مشاورت یا ترجمانی کرنے والے اداروں کو کام کاج کرنے کی اجازت دے رکھی ہے جن کی کینیڈین حکومت سے مقرر کردہ فیس آٹھ سے دس ہزار ڈالر ہے اور اِس قسم کی خدمات (ایڈوائزری سروسز) فراہم کرنے والوں کو اِس بات سے منع کیا جاتا ہے کہ وہ کسی بھی صورت آٹھ دس ہزار کینیڈین ڈالر سے کم فیس وصول نہ کریں۔ ذہن نشین رہے کہ ’2 ستمبر‘ کے روز ایک کینیڈین ڈالر 227 روپے کا ہے اور اگر کینیڈا میں کسی ویزا مشیر کی خدمات حاصل کی جائیں تو اِس پر اٹھارہ سے بیس لاکھ روپے خرچ آئے گا جبکہ یہی کام پاکستان سے کرنے پر دو سے تین لاکھ روپے خرچ آتا ہے لیکن ہر ادارہ یا شخص مجاز اور تجربہ کار ’مشیر‘ نہیں ہو سکتا۔ ”دوسرا مشورہ“ یہ ہے کہ ویزا یا ایمیگریشن حاصل کرنے کے لئے انتہائی حساس معلومات فراہم کرنے میں احتیاط کرنی چاہئے۔ مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹلی جنس) کے دور میں کسی بھی شخص یا خاندان کے بارے میں تفصیلی معلومات رکھنے والے کئی قسم کے ’فراڈ‘ کر سکتے ہیں اور ایسے فراڈ معمول بنتے جا رہے ہیں لہٰذا احتیاط کرنی چاہئے۔چھ سات ماہ پہلے کی بات ہے کہ مردان سے تعلق رکھنے والا ایک شخص کا رابطہ ’اُزبکستان‘ میں قائم ایک ویزا مشاورتی ایجنسی سے ہوا۔ اُس ایجنسی نے دعویٰ کیا کہ اُس کے پاس کینیڈا کے ویزے ہیں جو ماسکو میں موجود کینیڈین سفارتخانے سے لگوائے جاتے ہیں۔ اِس شخص سے Zoom نامی ایپلی کیشن کے ذریعے آن لائن میٹنگ کی گئی اور پندرہ ہزار امریکی ڈالرز (کم و بیش پچاس لاکھ پاکستانی روپے) میں بات طے ہو گئی۔ یہ شخص ازبکستان گیا جہاں اِس نے مذکورہ خطیر رقم ایک ’تھرڈ پارٹی‘ کے پاس بطور ضمانت جمع کروائی تاکہ جب ویزا مل جائے تو وہ یہ رقم ریلیز کر دے۔ چند روز بعد اُسے پاسپورٹ واپس دیا گیا جس پر کینیڈا کا ویزا لگا ہوا تھا اور اُس نے حسب وعدہ خوشی خوشی پندرہ ہزار امریکی ڈالر ریلیز کروا دیئے۔ اِس کے بعد اُس نے ٹکٹ خریدا لیکن جہاز پر سوار ہونے سے پہلے جعلی ویزا رکھنے پر اُسے گرفتار کر لیا گیا اور تین دن حراست میں رکھنے کے بعد اُسے پاکستان واپس بھیج دیا گیا۔ اِس طرح کی دھوکہ دہی کے درجنوں واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ پشاور میں جاری فراڈ کا طریقہ واردات یہ ہے کہ ویزے کے خواہشمند سے ڈھائی لاکھ روپے لے لئے جاتے ہیں اور اُسے کہا جاتا ہے کہ جب ویزے کے لئے انویٹیشن لیٹر ملے گا تب اُسے تیس یا چالیس یا پچاس لاکھ روپے دینا ہوں گے۔ انوی ٹیشن لیٹرز (دعوت نامے) جعلی اور اصلی دونوں صورتوں میں اِس بات کی ضمانت نہیں ہوتے کہ اُن پر لازماً ویزے ملیں گے لیکن اُن کے عوض سادہ لوح افراد کو لوٹا جا رہا ہے اور اِن لٹنے والوں میں بڑی تعداد افغان مہاجرین کی ہے! ویزا مشاورتی خدمات فراہم کرنے والے مختلف افراد سے بات چیت کے بعد چند تجاویز مرتب کی گئی ہیں جن میں پہلی تجویز یہ ہے کہ جعلی دستاویزات اور غلط بیانی کی بنیاد پر کسی بھی ملک کا ویزا حاصل کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔ دوسری تجویز یہ ہے کہ بیرون ملک کاروباری سرمایہ کاری کے لئے لامحدود امکانات موجود ہیں جن میں کم سے کم دو لاکھ امریکی ڈالر (چھ کروڑ پاکستان روپے) سے بھی سرمایہ کاری کی جا سکتی ہے لیکن یہ سرمایہ کاری کہاں کرنی ہے اور کیسے کرنی ہے اِس کے لئے پاکستان کے اندر ’درست مشاورت (ایڈوئزری)‘ کون دے سکتا ہے اور اُس مشاورت کا معیار و خصوصیات میں کیا کچھ شامل ہوگا اِس بات کا احاطہ آئندہ مضمون میں کیا جائے گا۔ تیسری تجویز یہ ہے کہ بیرون ملک کاروبار کے موجود مواقعوں سے استفادہ کرنے کے لئے ’ویزا ایڈوائزر‘ کی نہیں بلکہ ’بزنس ایڈوئزر‘ کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ کام بالکل ہی مختلف نوعیت کا یا زیادہ پیچیدہ و تکنیکی لحاظ سے مختلف ہے۔ چوتھی تجویز یہ ہے کہ ویزا درخواست کے لئے مشاورتی خدمات دینے سے پہلے اچھی طرح سوچ سمجھ لیں کہ کونسی معلومات دینی ہے اور کونسی نہیں دینی۔ غیرمتعلقہ اور غیرضروری معلومات دینے سے اِس بات کا امکان زیادہ رہتا ہے کہ یہ معلومات چوری ہو جائیں۔ گردوپیش میں دیکھیں کہ کس طرح جعل سازی کی شکایات زیادہ ہو رہی ہیں ۔