اندیش ہائے روزگار : اہم نکات

 پاکستان کے عام آدمی کو دیئے گئے سبز رنگ کے پاسپورٹ کی عالمی درجہ بندی میں بہتری کی بجائے سال بہ سال تنزلی (بے توقیری) دیکھی جا رہی ہے‘ پاکستانیوں کے لئے کسی بھی ملک کا سیاحتی‘ کاروباری یا مختصر معیاد کے قیام کا اجازت نامہ (ویزا) حاصل کرنے کا عمل آسان نہیں ہوتا لیکن تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ اگر چند احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں اور ویزا درخواست دیتے ہوئے غلطیاں نہ کی جائیں تو مشکل آسانی میں تبدیل ہو سکتی ہے جبکہ ایسی مثالیں بھی موجود ہیں جن میں غلط و مشکوک کوائف کی وجہ سے کوئی بھی ملک ہمیشہ کے لئے ’بلیک لسٹ‘ ہو سکتا ہے اور یہی وہ مقام ہے جہاں ویزا حاصل کرنے کے خواہشمند بطور احتیاط ’ویزا مشاورتی خدمات‘ فراہم کرنے والوں سے رجوع کرتے ہیں جن میں اکثریت غیرمستند افراد کی ہوتی ہے اور اُن کا ہدف دھوکہ دہی سے راتوں رات کروڑ پتی بن کر رفوچکر ہونا ہوتا ہے۔ ایسے ’بھوت کنسلٹنٹس‘ سے محفوظ رہنے کے لئے چند تجاویز پر عمل درآمد کارآمد ثابت ہو سکتا ہے۔ قبل ازیں کہ اُن تجاویز کا ذکر کیا جائے یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ بہت ہی کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو دوسروں کے تجربات (بالخصوص غلطیوں) سے کچھ سیکھتے ہوں ۔ پہلا نکتہ :۔کسی بھی ویزا مشاورت فراہم کرنے والے ادارے کے سربراہ یا منتظم یا نگران یا پاکستان میں نمائندہ ہونے کا دعویٰ کرنے والے ’ویزا مائیگریشن ایجنٹ‘ سے 4 بنیادی سوالات پوچھنے چاہیئں۔ 1: جن ممالک کی ویزا مشاورتی خدمات وہ فراہم کر رہا ہے کیا وہ اُن ممالک کی حکومتوں سے سند یافتہ ہے؟ اِس سلسلے میں RICC/CICC نامی تنظیموں کی رکنیت دیکھی جا سکتی ہے اور کسی مشاورتی ادارے کا RICC/CICC نمبر دیکھ کر اُس کے فیصلوں 
کی وقعت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اِس درجہ بندی کو دیکھنے سے معلوم ہو جائے گا کہ وہ ادارہ کتنے عرصے سے مشاورتی خدمات فراہم کر رہا ہے اور وہ کتنا مستند ہے۔ اِس معلومات سے حاصل ہونے والے اعتماد کے بل بوتے پر کسی مشاورتی ادارے کی خدمات سے استفادہ کیا جا سکتا ہے اور نہیں کیا جانا چاہئے۔دوسرا نکتہ: ۔جس ادارے کا ویزا مشاورتی خدمات سے استفادہ کرنے کے لئے انتخاب کیا جاتا ہے اور کی ویزا درخواست کی کامیابی کا تناسب کیا ہے؟ ایک مستند کنسلٹنٹ آپ کی خواہشات اور تجسس کو دیکھ کر نہیں بلکہ صاف الفاظ میں وہ بات کہے گا جو ویزے کا خواہشمند درخواست گزار سننا پسند نہیں کرتا۔ اگر آپ ان کی اہلیت کے معیار پر پورا نہیں اترتے ہیں تو وہ جھوٹی امید دینے کی بجائے آپ کا کیس لینے سے انکار کر دیتا ہے۔ ویزا مشاورتی ادارے کا بنیادی کام اُسی قسم کی باریک بینی سے ’چھان بین‘ کرنا ہوتی ہے جس قسم کی باریک چھان بین سے کسی ملک کا سفارتخانہ تحقیق کرتا ہے اور درخواست گزار کی طرف سے آنے والی درخواست کو منظور یا مسترد کرتا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ جہاں کہیں کوئی ویزا مشاورتی نجی ادارہ یہ دعویٰ کرے کہ وہ سوفیصدی ویزا دلوانے کا تجربہ رکھتا ہے تو سمجھ جائیں کہ ایسا عملاً ممکن نہیں ہے البتہ ویزا 
مشاورتی نجی ادارہ کسی ملک کے ویزے کے لئے دستاویزی ضروریات پوری کرنے یا اُنہیں پورا کرنے کے لئے نشاندہی کرنے میں آپ کی مدد ضرور کر سکتا ہے۔ تیسرانکتہ: ویزے کے حصول میں مشاورتی خدمات کی کم قیمت بھی اِس کی معیار کا منہ بولتا ثبوت ہوتی ہے۔ اگر کوئی ادارہ آپ کی انتہائی حساس معلومات لیتا ہے اور وہ نہایت ہی کم قیمت میں خدمات فراہم کر رہا ہے تو اِس کا مطلب ہے کہ آپ کے ذاتی کوائف اور معلومات جنہیں عالمی سطح پر انتہائی حساس معلومات قرار دیا جاتا ہے محفوظ ہاتھوں میں نہیں ہیں اور اِن تک غیرمتعلقہ افراد کو رسائی مل سکتی ہے۔ ’ریگولیٹڈ کمپنی‘ یعنی منظم کاروبار نہ ہونے کی وجہ سے کوئی ویزا مشاورتی ادارہ معیاری خدمات فراہم نہیں کر سکتا بلکہ کئی ایسی صورتیں جس میں وہ ویزا دلانے کا جھانسہ دے کر آپ کو خطیر رقم سے محروم کر سکتا ہے اور آپ کی انتہائی حساس معلومات وصول کر کے اُس کا غلط استعمال کر سکتا ہے یا اُسے غیر متعلقہ لوگوں کو فروخت کر سکتا ہے! آپ نے اکثر سنا ہوگا کہ بھتہ خور جب کسی کو پرچی بھیج کر رقم کا تقاضا کرتے ہیں تو آپ کی نجی زندگی کے بارے میں ایسی درست معلومات کا ذکر بھی کرتے ہیں‘ جن سے پرچی وصول کرنے والا خوفزدہ ہو جاتا ہے اور ’ساتواں نکتہ‘ یہ ہے کہ ویزے کی درخواست جمع کروانے کےلئے کسی بھی مشاورتی ادارے کی خدمات حاصل نہ کریں البتہ اُن سے مشورہ کر کے دستاویزی ضروریات کے بارے میں جان لیں اور پھر ویزا درخواست جمع کرانے کی مشقت خود کریں‘ یہ زیادہ محفوظ طریقہ ہے اور اِس میں ویزا ملنے کے امکانات بھی زیادہ ہوتے ہیں‘ تاہم اس حوالے سے خصوصی احتیاط کی ضرورت تاکہ غیر ضروری مشکلات سے بچا جا سکے۔