انتخابات ، آئینی تقاضہ اور زمینی حقائق 

نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ نے نوے روز میں انتخابات کا حکم دیا توحکومت عمل کرے گی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ عدالتوں کی عزت و تکریم پر سمجھوتا کرتے ہیں، تو پورا نظام متاثر ہوگا ۔ نگران وزیر اعظم کے یہ خیالات خوش آئند ہیں۔ جہاں تک انتخابات کا معاملہ ہے تو آئین اس حوالے سے بڑا واضح ہے اور اسمبلی تحلیل کیے جانے کے بعد انتخابات کے حوالے سے صریح حکم موجود ہے، جن کی تعمیل ہی آئینی بالا دستی اور جمہوریت کا اصول ہے۔ جمہوری روایت کا استحکام آئینی عملداری کے بغیر محض خیال و خواب ہے اور جمہوری روایات کا احترام کرنے والے معاشروں میں انتخابات کے حوالے سے آئینی تقاضوں پر کس خلوص نیت سے عمل کیا جاتا ہے اس کے لیے ترکیہ کی مثال کو مدنظر رکھنا چاہئے جہاں رواں سال فروری میں تباہ کن زلزلے میں قریب ساٹھ ہزار ہلاکتیں ہوئیں اور انفراسٹرکچر کا بے پناہ نقصان ہوا۔ یہ غیر معمولی تباہی صدر طیب اردوان کےلئے رواں سال کے صدارتی انتخابات کے التوا کا ایک ایسا جواز تھا جسے شاید دیگر سیاسی دھڑے بھی قبول کر لیتے‘ زلزلہ متاثرین کی امداد اور بحالی کے عمل میں حکومت سے پیدا ہونے والی شکایات اور ترکیہ میں مہنگائی کی شدید لہر بھی صدر اردوان کےلئے سیاسی طور پر ایک بڑا چیلنج بن گئی تھی، مگر زلزلے کے قریب ایک ماہ بعد جب حکومت سے شکایات عام تھیں اور کئی طرح کے ایشوز اٹھائے جارہے تھے، ترک صدر کی جانب سے عام انتخابات کا اعلان کر دیا گیا، اور یہ انتخابات مئی کی مقررہ تاریخ سے ایک دن آگے نہیں گئے اور جن انتخابات کو ترک صدر کے لیے سیاسی خطرے سے تعبیر کیا جارہا تھا وہ ان کیلئے تیسری مدت صدارت کا مینڈیٹ بن گئے۔ یہ سیاسی طور پر مضبوط اعصاب والے رہنماں کی نشانی ہے کہ وہ سیاسی اعتماد کا مظاہرہ کرتے ہیں اور اپنی مقبولیت کی جانچ سے گھبراتے نہیں ۔ یہی لوگ آخر کار اپنے ممالک کو ترقی دیتے اور عالمی صفوں میں آگے جگہ دلانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ آج پاکستان کے عوام جس درجے کی مہنگائی اور معاشی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں ملک کی پون صدی کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی ۔ یہ حالات قدرتی آفات کا نتیجہ نہیں زمینی حقائق کی وجہ سے ہیں۔ ان حالات میں سیاسی رہنماﺅں سے تدبر اور دور اندیشی کی توقع کی جاتی ہے کہ ملک کو مشکلات سے نکالنے کیلئے متفقہ لائحہ عمل تشکیل دیا جائیگا۔ عام انتخابات اس کے لئے بہترین ذریعہ ہیں، جو عوام کو آنے والے پانچ برس کے لیے اپنے حکمران چننے کا موقع فراہم کریں گے اور یہ حکمران اگر سیاسی بصیرت سے کام لیں تو اس عرصے میں ملک وقوم کے مسائل کو مکمل طور پر حل نہ بھی کر سکیں تو کم از کم اس اصلاحی عمل کی بنیاد تو ڈال سکتے ہیں۔دوسری طرف اس وقت نگران حکومت کو جن چیلنجز کا سامنا ہے ان میں سرفہرست معیشت کو مستحکم کرنا ہے اگر چہ نگران حکومت کے پاس وقت کم اور مقابلہ سخت والی کیفیت ہوتی ہے اور انہیں بہت کم وقت میں اہم اور دور روس نتائج کے حامل اقدامات کرنا ہوتے ہیں تاہم نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کے عزم حوصلے اور ٹھنڈے مزاج کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل نہیں کہ نگران وزیر اعظم ان حالات میں بھی بہترین نتائج دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ سب کچھ حکومت پر نہ چھوڑا جائے بلکہ تمام سیاسی جماعتیں اس صورت میں حکومت کی بھر پور مدد کریں تاکہ آنے والے الیکشنز کیلئے ایسا ماحول پروان چڑھے کہ ایک تو تمام جماعتوں کو عوام کے ساتھ رابطے اور مہم میں آسانی ملے اور دوسری طرف ایسا ماحول ہو کہ آپس کے اختلافات کی بجائے قومی اہمیت کے حامل اہم مسائل کے حل کی طرف پیش رفت ہو تاکہ آنے والی حکومت کیلئے اپنے ایجنڈے پر عمل کرنے میں سہولت ہو۔