قومی مسائل کے حل سے قبل درست ادراک لازمی

آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی ملک کی نمائندہ کاروباری شخصیات سے ملاقاتیں اور معاشی بحالی کے منصوبوں پر تبادلہ خیال مایوس کن معاشی صورتحال میں امید کی کرن دکھائی دیتا ہے۔ اس دوران کا روباری شخصیات سے معاشی بحالی کی تجاویز طلب کی گئیں اور ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے امکانات کو اُجاگر کیا گیا۔ جیسا کہ خبروں میں آچکا ہے کہ آرمی چیف نے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر اور کویت سے سرمایہ کاری کیلئے جاری کوششوں سے کاروباری شخصیات کو آگاہ کیا اور یہ بتایا کہ مذکورہ ممالک کی جانب سے ممکنہ سرمایہ کاری کا مجموعی حجم 75 سے 100 ارب ڈالر تک ہو سکتا ہے۔ ملک عزیز میں سرمایہ کاری کے امکانات کی کمی نہیں۔ اگر قومی وسائل سے بھر پور طریقے سے فائدہ اٹھایا جائے تو سارے دلدر دور ہو سکتے ہیں۔ اس تناظر میں خوراک کا پیداواری شعبہ قابل ذکر ہے ۔ معاصر دنیا میں خوراک کی طلب اور رسد میں بڑھتا ہوا فرق خوراک کی مہنگائی کا بنیادی سبب ہے؛ چنانچہ اس بحران سے ہمارے جیسے زرعی ممالک کیلئے بے شمار مواقع بھی پیدا ہوتے ہیں، کہ غیر آباد زمینیں آباد کی جائیں زراعت کو جدید صنعت کے طور پر ترقی دی جائے اور پیداوار بڑھانے کیلئے سائنسی ذرائع اور طریقہ کار اپنائے جائیں۔ دوسری جانب ہمیں معاشی بد نظمی کا سد باب کرنے کیلئے خصوصی اقدامات کی ضرورت ہے ۔ ڈالر کا چند دنوں میں 290 سے سوا تین سو روپے تک پہنچ جانا، چینی کا دو سو روپے فی کلو سے تجاوز کر جانا ہر طرح کی اشیاءکی سمگلنگ، ٹیکس چوری اور معیشت کا بیشتر حصہ غیر دستاویزی۔ ان حالات میں کسی ملک کی معیشت مستحکم نہیں ہو سکتی ۔ قیمتوں میں راتوں رات بڑے پیمانے کے اضافے بازار کے نارمل محرکات کی وجہ سے نہیں ہو سکتے ۔ مگر ہمارے ہاں ایک عرصے سے یہی بے یقینی کی فضا ہے۔ خوش آئند بات ہے کہ آرمی چیف نے بدعنوانی کی ان صورتوں کا نوٹس لیا اور ان کے سدباب کا عزم ظاہر کیا، جس کا فوری اثر سامنے آنا شروع ہو گیا ہے کہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر کے بھا ﺅمیں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ڈالر کی قدر اس وقت جس سطح کو پہنچ چکی ہے یہ حقیقی نہیں، مصنوعی بحران کا نتیجہ معلوم ہوتی ہے اور اس سے ملکی معیشت کو بے پناہ نقصان پہنچ رہا ہے ۔ ایسے میں ریاست کی جانب سے مضبوط عزم کیساتھ نظام کا فعال کرنااہم ہے ۔ ریاست کو جن شعبوں میں خصوصی عزم اور دیر پا اقدامات کی ضرورت ہے ان میں سمگلنگ کے خلاف زیرو ٹالرنس، ٹیکس چوری کا خاتمہ، خسارے میں چلنے والی قومی کارپوریشنز کی نجکاری، زرعی شعبے کی ترقی کیلئے خصوصی اقدامات اور جدت سرفہرست ہونی چاہئے۔ ان نکات کو معیشت کے رہنما اصولوں کے طور پر نافذ کرنے کے بعد ان اقدامات پر پہرہ دینا ہوگا۔ ماضی میں دیکھیں تو پالیسی کی سطح پر کسی شعبے میں یہاں کوئی کمی نہیں مگر الفاظ کوعملی جامہ پہنانے کیلئے جس عزم کی ضرورت تھی ہم اس میں مار کھا گئے‘ ونسٹن چرچل کا یہ قول کہ کسی بحران کو ضائع مت جانے دیں ہمارے لیے قابل غور ہونا چاہئے۔ ایک عرصہ ہوا کہ وطن عزیز مسلسل کسی نہ کسی بحران سے دو چار ہے مگر اب تو گویا بحرانوں کے دورانیے بڑھ گئے ہیں‘چینی‘ بجلی‘ ڈالر‘صنعتی شعبہ‘روزگار کے مواقع، سرمایہ کاری، سیاسی استحکام کتنی ہی قسم کے بحرانوں نے پاکستان کو گھیر رکھا ہے۔ مگر ارادے پختہ ہوں تو کوئی بھی مسئلہ ایسا نہیں ہوتا کہ اس کا حل نہ نکل سکے۔