حکومت ایکشن لے تو فرق پڑتا ہے

 ڈالر کی بلیک مارکیٹ کے خلاف سخت اقدامات کے فوری اور موثر نتائج سامنے آئے ہیں۔ گزشتہ روز اوپن مارکیٹ میں ڈالر 313 روپے میں فروخت اور 310 روپے میں خریدا جا رہا تھا، جو ایک روز پہلے 317 روپے پر بند ہوا۔ انٹر بینک میں بھی ڈالر کی قدر کم ہوئی اور ایک ڈالر 306 روپے 45 پیسے کا ہو گیا۔ معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ ڈالر کی بلیک مارکیٹ اور سمگلنگ کا خاتمہ کر دیا جائے تو اوپن مارکیٹ اور انٹر بینک میں فرق ایک سے ڈیڑھ فیصد تک آ جائے گا، مگر حالیہ چند دنوں کے دوران اوپن مارکیٹ میں ڈالر 335 روپے تک گیا۔ آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق ایکسچینج ریٹ کا تعین مارکیٹ کے ہاتھوں میں دئیے جانے کے پیچھے یہ نقطہ نظر تھا کہ حکومت ریٹ کو مصنوعی طریقے سے مستحکم کرنے کے بجائے مارکیٹ کو اس کے محرکات پر چھوڑے اور اپنا اختیار ریگولیشن تک رکھے۔ یہ طریقہ کار یقینا فائدہ مند ثابت ہوتا بشرطیکہ ملک میں زرمبادلہ کی آمد بڑھائی جاتی اور سمگلنگ اور ذخیرہ اندوزی سے سختی کے ساتھ نمٹا جاتا۔ مگر یوں لگتا ہے کہ اس سلسلے میں آدھا کام ہوا ہے، یعنی قیمت کا تعین تو مارکیٹ پر چھوڑ دیا گیا لیکن مارکیٹ کے استحصالی حربوں پر قوانین و ضوابط کی گرفت مضبوط نہیں کی گئی، نتیجتاً زر مبادلہ کے کام میں کئی طرح کی گرے مارکیٹس پیدا ہوئیں ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو حکومت سے کسی اجازت نامے کے بغیر کرنسی کا کاروبار کر تے ہیں۔ وہ لوگ بھی ہیں جو قیمت فروخت بہت زیادہ دے کر مارکیٹ کو ہلا کر رکھ دیتے ہیں اور ایسے لوگ بھی ہیں جو بیرون ملک سے غیر قانونی طریقے سے ترسیلات زر کا کام کر رہے ہیں۔ یہ کام کرنے والے ڈالر یا دیگر غیر ملکی کرنسی پاکستان نہیں لاتے بلکہ اس کے بدلے مقامی کرنسی دی جاتی ہے۔ چونکہ یہ لوگ عام مارکیٹ سے زیادہ ریٹ دیتے ہیں اس لیے ترسیلات زر میں حوالہ ہنڈی کے حصے میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، جس کا اندازہ ترسیلات زر میں کمی سے لگایا جا سکتا ہے۔ گزشتہ مالی سال کے دوران ترسیلات میں چار ارب ڈالر کی کمی آئی جبکہ رواں مالی سال کے پہلے ماہ کے دوران گزشتہ سال کے اسی مہینے کے مقابلے میں 50 کروڑ ڈالر کی کمی آئی۔ اگر یہ رجحان اسی اوسط سے جاری رہا تو اس سال ترسیلات زر کا نقصان چھ ارب ڈالر تک پہنچ سکتا ہے۔ یہ صورتحال ادارہ جاتی اقدامات بڑھانے اور کرنسی مارکیٹ کے بگاڑ دور کرنے کے لیے سنجیدہ اور دور رس اقدامات کی ضرورت کو واضح کرتی ہے۔ ڈالر کی قدر میں حالیہ دو تین ہفتوں کے دوران جس رفتار سے اضافہ ہوا یہ واضح کرنے کے لیے کافی تھا کہ کس سطح پر بڑے پیمانے کی بے ضابطگی ہے اسلئے تو آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے ان حالات کا نوٹس لیا جس کا فوری اثر ہوا اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر 310 روپے تک آ گیا جو چند روز پہلے 334 روپے کی بلند ترین سطح پر تھا۔ معلوم ہوا کہ ادارے جب نوٹس لیتے ہیں تو ان کے اثرات بھی سامنے آتے ہیں۔ یہ صرف ڈالر کی مارکیٹ کی ریگولیشن تک محدود نہیں، پوری معیشت کا یہی حال ہے کہ معاملہ مارکیٹ فورسز پر چھوڑا جائے اور حکومت ریگولیشن کی ذمہ داری سے خود کو دستبردار کر لے تو استحکام ممکن نہیں ۔ ترقی یافتہ اور لبرل معیشتوں میں بھی ایسے نہیں ہوتا چہ جائیکہ ہمارے جیسے ممالک جہاں قانون، قاعدے کی پیروی کا رجحان کم ہے اور جس کسی کا دا ﺅلگے وہ لگانا چاہتا ہے۔ اب چینی ہی کو لیں۔ حکومت کو پیش کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق قیمتوں میں اضافے سے عوام پر 56 ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑا ہے ۔ اس ضمن میں بھی سخت اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ یہ مسئلہ بھی حل ہو اور کوشش کی جائے تو مشکل سے مشکل معاملات کا حل نکل آتا ہے ۔نگران حکومت کو اس وقت کئی چیلنجز کا سامنا ہے جس سے عہدہ براہ ہونے کیلئے ضروری ہے کہ بروقت اور موثر اقدامات اٹھائے جائیں۔اس سے ایک طرف عوام کو ریلیف دینے میں آسانی ہوگی تو ساتھ مجموعی طور پر ملکی معیشت کو صحیح ڈگر پر ڈالنا بھی ممکن ہو سکے گا اور صرف اسی صورت میں عوام کو ریلیف دینے کا راستہ بھی نکل سکتاہے کہ ملکی معیشت میں اس قدر دم خم ہو کہ تجارتی سرگرمیوں میں اضافے کی صورت میں تنائج سامنے آئیں۔ اس وقت اگر چہ ڈالر کی قیمت میں کمی بھی آئی ہے اور سٹاک مارکیٹ میں تیزی بھی ۔ تاہم اس عمل کو مسلسل بنیادوں پر رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ نگرانی اور مانیٹرنگ کا موثر نظام مسلسل کام کرے اور مارکیٹ پر نظر رکھے تاکہ معیشت میں استحکام جاری رہے۔