تعلیمی ’سپیڈ بریکرز‘

خیبر میڈیکل یونیورسٹی (کے ایم یو) پشاور نے امتحانات کی فیسوں میں ’دس فیصد‘ اضافہ واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ اقدام گورنر خیبرپختونخوا حاجی غلام علی کی ذاتی دلچسپی لینے سے ممکن ہوا ہے جنہوں ننے سرکاری جامعات (پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں) کے وائس چانسلرز کے خصوصی اجلاس کو فیسیں کم کرنے پر قائل کیا جو عوام کا دیرینہ مطالبہ اور اُن کے جذبات کی صحیح معنوں میں ترجمانی و عکاسی ہے۔ مذکورہ ملاقات کے دوران گورنر نے موجودہ مالی چیلنجز اور والدین و طلبہ کو درپیش مشکلات پر جامعات کے فیصلہ سازوں کے ساتھ تبادلہ¿ خیال کیا اور اُن کے سامنے عوامی نکتہ¿ نظر رکھا جسے تسلیم کرتے ہوئے فیسوں میں اضافہ واپس لے لیا گیا ہے اور یہ اپنی نوعیت کی واحد ایسی مثال ہے جس میں سرکاری تعلیمی اداروں نے درس و تدریس کے اخراجات سے متعلق اپنے کسی مو¿قف سے رجوع کیا ہے۔ اُمید ہے کہ گورنر خیبرپختونخوا کا دفتر صوبے کے نجی جامعات کے ساتھ بھی خط و کتابت کر کے اِس بات کو یقینی بنائے گا کہ معاشی مشکلات کے دور میں وہ فیسوں میں اضافہ نہ کریں اور عوام کو ریلیف دیا جائے۔خیبر میڈیکل یونیورسٹی معیار تعلیم اور مثالی نظم و ضبط کے لحاظ سے صوبے کی نامور جامعہ ہے جس کی جانب سے امتحانی فیسوں پر نظرثانی کرتے ہوئے ’دس فیصد اضافہ‘ واپس لینے کا فیصلہ اِس حقیقت کی عکاسی کر رہا ہے کہ سرکاری فیصلہ سازی عوام کی اُمیدوں کے مطابق ممکن ہو سکتی ہے ۔چونکہ گورنر وفاق کا نمائندہ ہوتا ہے اور پاکستان میں طب (میڈیکل و ڈینٹل) کی تعلیم وفاقی حکومت کے ادارے ’پاکستان ڈینٹل اینڈ میڈیکل کونسل (پی ایم ڈی سی)‘ کے زیرکنٹرول ہے اِس لئے گورنر صاحب مجاز ہیں کہ وہ خیبرپختونخوا کے ہزاروں طلبہ کے مفادات کا تحفظ کریں۔ یہ حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہئے کہ خیبرپختونخوا میں میڈیکل (MBBS) اور ڈینٹل (BDS) کے کل 14 سرکاری تعلیمی ادارے ہیں۔ اِن میں 10میڈیکل اور 4 ڈینٹل کے ادارے ہیں اور اِن اداروں میں ہر سال 1620 خوش قسمت طلبہ کو داخلہ ملتا ہے جس میں میڈیکل کے 1370 اور ڈینٹل کی کل 250 نشستیں ہیں اور کسی بھی نجی یا سرکاری یونیورسٹی میں داخلہ حاصل کرنے کے لئے لازم ہے کہ ’ایم بی بی ایس‘ کا اُمیدوار ’ایم ڈی کیٹ‘ میں کم سے کم 55فیصد نمبر حاصل کرے جبکہ دینٹل میں داخلے خواہشمندوں کے لئے 45فیصد نمبر حاصل کرنا ضروری ہوتے ہیں۔ اِس سے قبل میڈیکل کے لئے 65فیصد جبکہ ڈینٹل کے لئے کم سے کم پاسنگ مارکس 60فیصد تھے اور اگر ملک گیر سطح پر ہونے والے اِس امتحان میں حصہ لینے والوں کی بات کی جائے تو سال دوہزاراکیس میں 1 لاکھ 94 ہزار 133 طلبہ نے ایم ڈی کیٹ کا امتحان دیا جن میں 68 ہزار 680 کامیاب ہوئے اور کامیابی کی یہ شرح 35.4فیصد رہی۔ توجہ طلب بات یہ ہے کہ پاکستان میں نجی و سرکاری جامعات میں مجموعی داخلہ نشستیں ’16 ہزار 265‘ ہیں جبکہ 52 ہزار 415 طلبہ نے ایم ڈی کیٹ امتحان پاس کیا جن کی بڑی تعداد داخلے سے محروم رہی۔ ایسے طلبہ کے تعلیمی مستقبل کے بارے میں بھی سوچ بچار ہونی چاہئے کہ ’ایم ڈی کیٹ‘ کا امتحان پاس کرنے والوں کے لئے خاطرخواہ داخلوں کا بندوبست کیا جائے اور اہم بات یہ بھی ہے کہ ایم ڈی کیٹ امتحان پاس کرنے اور داخلہ نہ ملنے والے طلبہ کو کم سے کم ’ایم ڈی کیٹ امتحان کی وصول شدہ فیس‘ اُن کے بینک اکاو¿نٹس کے ذریعے واپس کر دی جائے۔ علاو¿ہ ازیں اصولاً تو کسی بھی طالب علم کی اہلیت کو جانچنے کے لئے ایک سے زیادہ قسم کے امتحانات نہیں ہونے چاہیئں کیونکہ اگر کسی ایک امتحانی نظام میں خرابی ہے تو اُسے دور کیا جائے لیکن اب جبکہ الگ امتحان (ایم ڈی کیٹ) متعارف کروا یا گیا ہے تو اسے جدید تقاضوں اور جدید رجحانات کے مطابق ڈھالنا ہے اور اِس عمل کو اِس طریقے سے وسیع کیا جانا چاہئے کہ اِس میں سب کیلئے مطالعے اور تدریسی مواقع ایک جیسے ہوں۔خیبرپختونخوا میں ذہانت کی قطعی کوئی کمی نہیں لیکن اگر طلبہ کو تعلیم حاصل کرنے کے یکساں مواقع فراہم کئے جائیں اور اِس مقصد کے لئے اگر موجودہ سرکاری میڈیکل کالجوں میں شام کی کلاسز کا آغاز کیا جائے تو موجودہ تعداد سے زیادہ ایم ڈی کیٹ پاس کرنے والے طلبہ کو داخلہ مل سکے گا۔ خیبرپختونخوا سے 12 ہزار 205 طلبہ کامیاب ہوئے جبکہ سندھ سے 7 ہزار 797‘ بلوچستان سے 1 ہزار 537‘ اسلام آباد سے 2 ہزار 139‘ گلگت بلتستان سے 456‘ آزاد جموں و کشمیر سے 1 ہزار 478 اور پنجاب سے 42 ہزار 860 طلبہ نے 42 فیصد کے تناسب سے کامیابی حاصل کی تھی۔ خیبرپختونخوا سے ’ایم ڈی کیٹ‘ پاس کرنے والوں کا تناسب 29.32فیصد ہے جو دیگر صوبوں سے کم ہے لہٰذا ’ایم ڈی کیٹ کی تیاری‘ کے تدریسی مواقعوں میں اضافہ ہونا چاہئے۔ گورنر خیبرپختونخوا کے لئے سوچ بچار کا اضافی نکتہ یہ پیش خدمت ہے کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد تعلیم صوبائی موضوع بن چکا ہے اور طب کی تعلیم کے حوالے سے صوبہ وفاق سے بہت سی مراعات حاصل کر سکتا ہے۔ تعلیم کی راہ میں حائل رکاوٹیں (سپیڈ بریکرز) ختم کئے جائیں۔ پشاور کی بڑھتی ہوئی اور موجودہ آبادی کو مدنظر رکھتے ہوئے کم سے کم چار یا پانچ نئے میڈیکل کالجز کی ضرورت ہے جن کے لئے ہسپتال (علاج گاہیں) بھی موجود ہیں۔ اِس بارے میں بھی غور ہونا چاہئے کہ اگر صوبائی محکمہ صحت ہسپتالوں کو طب کے نجی تعلیمی اداروں کے ساتھ اشتراک عمل سے چلا سکتا ہے تو ایسے میڈیکل کالج کیوں نہیں بنائے جا سکتے جس میں نجی شعبہ سرمایہ کاری کرے لیکن اُن میڈیکل و ڈینٹل کالجوں کا انتظام و انصرام صوبائی حکومت کے پاس رہے۔