داخلی خوف

انگریزی ناول نگار روڈ یارڈ کپلنگ نے کہا تھا کہ ”لفظ میں موجود تمام جھوٹوں میں سے خوفناک جھوٹ کسی شخص کے اندر موجود ’خوف‘ ہوتا ہے۔“ سمجھنے لائق بات یہ ہے کہ ہر انسان کے اندر کسی نہ کسی صورت خوف رہتا ہے اور اگر اِس داخلی خوف پر قابو پا لیا جائے تو پھر دنیا کی کوئی بھی طاقت ’صاحب ِیقین‘ کو شکست نہیں دے سکتی۔ توجہ طلب ہے کہ انسان دوسروں سے نہیں بلکہ اپنے آپ سے شکست کھا رہا ہوتا ہے اور یہی داخلی خوف شکست دیتا ہے‘ جس کا بوجھ ہر انسان اُٹھائے اُٹھائے پھر رہا ہوتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ خوف آخر پیدا ہی کیوں ہوتا ہے؟ درحقیقت انسانی دماغ جو کہ جسم کے تمام افعال کنٹرول کر رہا ہوتا ہے اور اِس کے بغیر جسم صرف ایک جامد اور غیر حساس حقیقت رہ جاتی ہے تو دماغ جسم پر حاکم ہوتا ہے اُور جسم کسی ’کمہار‘ کے ہاتھوں میں مٹی کی طرح دماغ کے قابو میں ہوتا ہے جو اِسے جیسا چاہتا ہے ویسا بنا سکتا ہے۔ توجہ کریں کہ مٹی کبھی بھی کمہار کو یہ نہیں بتاتی کہ اُسے کس چیز کی شکل میں ڈھالنا ہے۔ اسی طرح‘ انسان کے داخلی اعضا (دل‘ معدہ‘ گردے اور پھیپھڑے وغیرہ) کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اُنہوں نے کون کون سے افعال کرنا ہیں اور کب کرنے ہیں۔ اِس کام کے لئے وہ مسلسل ذہن سے رابطے میں رہتے ہیں اور ذہن سے احکامات (فیصلے) لے رہے ہوتے ہیں۔ انسانی جسم کے کسی بھی حصے یا جز یا اعضا ءمیں ’ذہانت‘ نہیں ہے بلکہ وہ صرف اور صرف ذہن کے حکم پر رد عمل ظاہر کرتے ہیں یعنی پیروی کر رہے ہوتے ہیں اور یہ سلسلہ انسان کے پیدا ہونے سے اُس کی موت تک جاری رہتا ہے یعنی انسان کا جسم اور وجود کچھ اور نہیں بلکہ دماغ ہے اور یہ وہ مقام ہے جہاں ذہن کی رہنمائی اور گمراہی کرنے والی ’سوچ (خیالات)‘ کا عمل دخل شروع ہوتا ہے‘ جس طرح کسی کی سوچ ہوگی ویسی ہی اُس انسان کی شخصیت بھی ہوگی۔ ہر شخص اپنی سوچ کے مطابق شخصیت کا مالک ہوتا ہے اور اِسی سوچ کے مطابق اُس سے اعمال سرزد ہو رہے ہوتے ہیں۔ کسی انسان کی زندگی کے تمام چھوٹے بڑے فیصلے اُس کے ذہن میں طے ہوتے ہے۔ فتح ہو یا شکست‘ دکھ ہو سکھ‘ فکری غربت ہو یا خوشحالی‘ طاقت ہو یا کمزوری‘ صحت ہو یا بیماری‘ خوشی ہو یا غم‘ تسکین ہو یا بے چینی‘ اضطراب ہو یا سکون یہ سب حالتیں ذہن میں میں پیدا ہونے والی تحاریک کا نتیجہ ہوتی ہیں اور اِنہی تحاریک کی وجہ سے جسم کے اعضا کام کرتے ہیں۔ مثلاً اگر کوئی شخص پریشان ہو تو اُسے بھوک پیاس کا احساس نہیں رہتا اور مستقل ذہنی پریشانی (ڈپریشن) کو تو بیماری قرار دے کر اُس کا باقاعدہ علاج کیا جاتا ہے۔سوچ سے متعلق اِس تمہید (بیان) کا مقصد یہ ہے اگر ہم درپیش مسائل پر غور کریں تو یہ جان کر حیران ہوں گے کہ جملہ مسائل کے ذمہ دار کوئی اور بلکہ ہم خود ہیں کیونکہ ہمارے بیشتر مسائل ’خوف کی پیداوار‘ ہیں۔ یاد رکھیں کہ مسائل نام کی کوئی بھی چیز نہیں ہوتی بلکہ یہ ہمارا خوف ہوتا ہے جو مسائل کو جنم دیتا ہے۔ دنیا کے ‘ مسائل‘ بیماریاں اور احساس ِمحرومی خوف ہی کا نتیجہ ہیں کیونکہ خوف اپنے شکار کی تلاش میں جنگل میں گھومنے والے بھوکے شیر کی طرح ہے کہ شکار کرنے میں ایک لمحے کی تاخیر بھی نہیں کرتا۔انسانی زندگی کا ہر تجربہ ذہنی رویئے کا نتیجہ (عکاس) ہوتا ہے۔ ہم صرف وہی کر سکتے ہیں جو ہم کرنا چاہتے ہیں۔ ہم صرف وہی بن سکتے ہیں جو ہم بننا چاہتے ہیں اور صرف وہی کچھ حاصل کرسکتے ہیں جس خواہش کو اپنے لئے پسند (انتخاب) کرتے ہیں۔ ہم جو کچھ بھی ہیں یا ہمارے پاس جو کچھ ہے یہ سب ہماری سوچ پر منحصر اور سوچ کا نتیجہ ہے۔ آج کا انسان خلاو¿ں کی سیر کر رہا ہے‘ زمین اور سمندروں کی گہرائی میں خاک چھان کر رہا ہے لیکن وہ نہیں جانتا کہ اُسے اپنے ذہن میں آنے والے کسی بھی خیال کو کیسے ضبط (کنٹرول) کرنا ہے۔ یہ بات اپنی جگہ حقیقت ہے کہ اگر کوئی شخص یہ سوچے کہ اُس نے اگلے دس سیکنڈ بندر یا کسی بھی شے کے بارے میں نہیں سوچنا تو اُس کا ذہن اُسی کے بارے میں سوچنا شروع کر دے گا۔ انسان کو خیالات کی قید (غلامی) سے آزاد ہونا ہے کیونکہ خیالات خاموشی اور آسانی سے شکار کرتے ہیں اور وہ ہمیں اس قدر گرفت میں لے لیتے ہیں کہ ہمارے لئے خیالات سے راہ¿ فرار حاصل کرنا صرف مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن حد تک دشوار ہو جاتا ہے اور یوں ہم کسی نشے کے عادی انسان کی طرح اپنے خیالات کے اسیر ہو جاتے ہیں! عملی نفسیات کا ایک اہم رہنما اصول یہ ہے کہ ”منفی سوچ پر قابو پانے کی طاقت ہونی چاہئے“ اور یہ طاقت عمل و مشق سے آتی ہے۔ حقیقی اور معنوی زندگی صرف اُس وقت شروع ہوتی ہے جب کوئی شخص اپنے ذہن میں آنے والے کسی خیال کو‘ آتے ہی بھانپ لے اُور فوراً اُسے موقع پر ہی بے نتیجہ اور منفی سوچ قرار دے کر رد کر دے۔ سوچ کو اپنانے سے لامتناہی سوچ کا سلسلہ چل نکلتا ہے اور سوچ پر قابو پانے کی صلاحیت ایک ایسا ’فن‘ ہے جسے صرف سیکھنے کی نہیں بلکہ اِس سے متعلق مہارت حاصل کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اِسی میں کسی انسان کی کامیابی یا ناکامی کا راز چھپا ہوا ہے۔ جب ہم یہ بات سمجھ لیں کہ ہمارے خوف اور ہماری سوچ ہم پر حکمرانی کرنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں کسی کا بھی خوف نہیں رہتا۔ سب سے بڑی طاقت دوسروں کی مدد اور دوسروں کی بھلائی میں خوشی محسوس کرنا ہے۔ ہر شخص ہر دن کے آغاز اور اختتام پر اپنے اعمال کا احتساب کرے اور دیکھے کہ وہ خوف سے نجات اور سوچ کی بلندی کے ذریعے اپنی حالت کیسے بہتر بنا سکتا ہے۔ ایسے کئی سوالات ہیں جو ہر دن ہمارے ذہن میں آتے ہیں اور ہمیں پریشان کئے رہتے ہیں تو وقت ہے کہ اُن سوالات کا جواب تلاش کیا جائے۔