کرکٹ: پاکستان بمقابلہ بھارت

ایشیا کپ میں پاکستان کی جیت کا سلسلہ جاری ہے۔ ٹورنامنٹ کے پہلے راو¿نڈ میں نیپال کو شکست دینے اور پھر بارش کی وجہ سے بھارت کے خلاف مقابلہ ’ڈرا‘ ہونے کے باوجود پاکستان (ٹیم گرین) کا پلڑا بھاری ہے۔ قذافی سٹیڈیم لاہور میں سپر فور مرحلے کے اپنے پہلے میچ میں بنگلہ دیش کو شکست دے کر ’ٹیم گرین‘ کے حوصلے مزید بلند دکھائی دے رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ آج (10ستمبر) کے روز بھارت کے خلاف مقابلے کے لئے ’ٹیم گرین‘ فیورٹ قرار دی جا رہی ہے اور صرف بھارت ہی نہیں بلکہ بھارت کے بعد 14 ستمبر کے روز سری لنکا کے خلاف میچ کے لئے ’ٹیم گرین‘ کو فیورٹ قرار دیا جا رہا ہے لیکن ذہن نشین رہے کہ کرکٹ کے مقابلوں میں فیورٹ اور ہاٹ فیورٹ ٹیم ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا بلکہ وہی ٹیم کامیاب ہوتی ہے جو جسمانی طور پر مستعد ہونے کے ساتھ ذہنی طور پر دباو¿ سے آزاد ہو اور اُس کے کھیل پر انفرادی کھلاڑیوں کی کارکردگی نہیں بلکہ ٹیم کی کارکردگی حاوی دکھائی دے۔ پاکستان کی ٹیم بیٹنگ کے مقابلے باﺅلنگ کے شعبے میں خاصی مضبوط ہے اور یہی وہ خاص بات جس کی وجہ سے ہر مخالف ٹیم کو ’گرین شرٹس‘ کے ساتھ مقابلہ کرنے کے بارے میں سوچتے ہی پسینے آ جاتے ہیں۔ دنیا کے تین تیز رفتار گیند باز جو کہ گیند بازی میں ’خوفناک‘ اور ’بے رحم‘ مشہور ہیں‘ ہر اُس مقابلے کے لئے پوری طرح تیار ہیں‘ جس سے پاکستان کی عالمی کرکٹ میں درجہ بندی (رینکنگ) بہتر ہو۔ ایشیا کپ میں اب تک دلچسپ مقابلے اور بہترین کرکٹ دیکھنے کو مل رہی ہے‘ خاص طور پر پاکستان اور بھارت کے مابین روایتی مقابلہ جو اگرچہ حسب توقع نتیجے پر ختم نہیں ہوا لیکن پھر بھی اِس میں ٹیم گرین کا جوش و جذبہ اور صلاحیتیں سامنے آئی ہیں‘ جن کے درپردہ منصوبہ بندی کے عنصر کو نظرانداز نہیں کرنا چاہئے۔ ایشیا کپ کے فیصلہ سازوں نے سری لنکا کا انتخاب جن وجوہات کی بنا پر بھی کیا اُن میں کرکٹ کے مفاد کو مدنظر نہیں رکھا گیا اور یہی وہ بدقسمتی ہے ممالک کی کرکٹ اور عالمی و علاقائی کرکٹ کے فیصلوں پر حاوی ہے۔ آئی سی سی نے سپر فور مرحلے کے بقیہ چار مقابلوں اور فائنل کے لئے کولمبو کا انتخاب کیا ہے حالانکہ سری لنکا کے دارالحکومت میں اگلے دس روز تک بارش کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ تعجب خیز ہے کہ کرکٹ کے فیصلہ ساز کس طرح موسمیاتی پیشگوئی کو نظرانداز کر سکتے ہیں! کرکٹ شائقین آئی سی سی کے فیصلوں کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ اِن فیصلوں پر بھارتی کرکٹ بورڈ کا غلبہ ہے جو اِس بورڈ کو حاصل ہونے والی کل آمدنی کا بڑا حصہ فراہم کرتا ہے۔ بھارت کی جانب سے پاکستان میں کھیلنے سے انکار کے بعد جب ہائبرڈ ماڈل کے تحت ٹورنامنٹ کے انعقاد کا فیصلہ کیا گیا تو پاکستان کے کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے متحدہ عرب امارات کو متبادل مقام کے طور پر تجویز کیا تھا تاہم پاکستان کے درست فیصلے کو تسلیم نہیں کیا گیا اور بھارت کے غلط فیصلے کو زیر اثر آئی سی سی نے تسلیم کرتے ہوئے سری لنکا کا انتخاب کیا حالانکہ یہ جزیرہ سال کے اِن دنوں بارش کا مرکز رہتا ہے۔ اچھی خبر یہ ہے کہ پاکستان کی کرکٹ ٹیم فائنل کے لئے باآسانی کوالیفائی کر لے گی چاہے سپر فور مرحلے کے بقیہ تمام میچز مکمل طور پر
 شکست کا شکار ہی کیوں نہ ہوں۔ کرکٹ شائقین دعا گو ہیں کہ ایشیا کپ کے آج (پاکستان بمقابلہ بھارت) کے علاوہ باقی ماندہ مقابلے بارش کی نذر نہ ہوں۔بھارتی ٹیم جو پالی کیلے میں ممکنہ شکست سے بچ گئی تھی اب کسی بھی شکست کو ٹالنے کے لیے موسم کو مسلسل دو دن بھارت پر مہربان رہنا ہوگا۔سپر فور کے مرحلے میں دونوں ٹیمیں کمزور ٹیموں کو شکست دے کر آگے پہنچی ہیں لیکن دونوں کے خلاف سو درجے کمتر ٹیم نیپال نے اپنی قوت سے زیادہ کارکردگی دکھائی ہے۔ اگر انہوں نے پاکستان کی ابتدائی وکٹیں جلد اڑادی تھیں تو ان کی بیٹنگ نے بھی بھارتی باﺅلرز کو پریشان کردیا تھا۔ بھارت کے خلاف 200 سے زائد سکور کرنے پر بھارتی میڈیا نے اپنے باﺅلرز کی بہت کلاس لی ہے۔ ایک کمزور اور ناتجربہ کار بیٹنگ کے خلاف جس طرح بھارتی باﺅلنگ جدوجہد کررہی تھی اس نے احمدآباد کے ورلڈکپ کے معرکے سے قبل ہی پاکستانی بیٹنگ کی دھاک بٹھادی ہے۔بھارتی میڈیا پاکستانی باﺅلرز کو اب مارٹر توپوں سے تشبیہ دے رہا ہے۔ ان کے آگے بھارت کے مایہ ناز بلے باز سوکھے پتوں کی طرح بکھر رہے تھے،شاہین شاہ آفریدی جنہیں قدرتی طور پر اپنی کلائی کو موڑنے میں ملکہ حاصل ہے وہ آخری وقت میں گیند پھینکتے ہوئے کلائی کو نیچے کی طرف جھکاتے ہیں اس سے ہوتا یہ ہے کہ گیند اپنی حد سے زیادہ باہر کی طرف نکلتی ہے اور بلے باز کے پاس گیند کی سمت کا تعین کرنے کا وقت نہیں ہوتا۔ روہت شرما کی بار بار اگلے قدموں پر آﺅٹ ہونے کی وجہ ہی یہی ہے
 اور پھر شاہین شاہ جس مہارت سے کریز کا استعمال کرتے ہیں اس سے گیند سیم بھی بہت ہوتی ہے۔بھارتی کیمپ میں شاہین شاہ کی اس گیند کا بار بار تجزیہ کرکے سمجھایا جارہا ہے کہ انہیں کیسے کھیلا جائے۔ جبکہ نسیم شاہ کی بانسرز اور حارث رﺅف کی یارکرز نے بھی پریشان کررکھا ہے۔ بھارت کا سارا زور اس بات پر ہوگا کہ سیمرز کے اوورز کو نکالا جائے اور اسپنرز پر اٹیک کیا جائے۔بھارتی کیمپ میں بلے بازوں کو پاکستانی سیمرز کے اوورز نکالنے کے حوالے سے سکھایا جارہا ہے۔پاکستانی بیٹنگ اس وقت بہت سکون میں ہے کیونکہ مڈل آرڈر پرفارم کررہا ہے۔ بابراعظم کو دوسرے اینڈ سے مکمل تعاون حاصل ہے جس کے باعث بیٹنگ پر دباﺅ کم ہے۔ بھارتی باﺅلنگ واجبی سی ہے۔ جسپریت بمراہ کی واپسی نے اسے مضبوط تو کیا ہے لیکن دوسرے سیمرز کی کارکردگی معمولی ہے۔ کلدیپ یادیو اور روی جڈیجا کی اسپن باﺅلنگ قابل دید ہوگی۔بھارت کے خلاف سلمان علی آغا کی بیٹنگ بہت اہم ہوگی کیونکہ محمد رضوان کا سپنرز کے خلاف ریکارڈ اچھا نہیں ہے۔ پاکستان ٹیم وہی ہوگی جس نے بنگلہ دیش کو شکست دی تھی لیکن سعود شکیل کو کھلانا زیادہ سود مند ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ وہ ورلڈکپ سکواڈ میں شامل ہیں اور ضروری ہے کہ انہیں اب ٹیم کا حصہ بنایا جائے۔ پاکستان غیر ضروری طور پر فہیم اشرف کو کھلارہا ہے۔ ان کی جگہ سعود شکیل بہتر ہوں گے۔بھارت بھی ممکنہ حد تک وہی ٹیم کھلائے گا جوکہ پہلا میچ کھیلی تھی اور ویرات کوہلی انڈین ٹیم کی امیدوں کا مرکز ہوں گے۔سب سے اہم سوال جو گردش کررہا ہے کہ کیا اس میچ کے کچھ اثرات ہوں گے؟ اگر فائنل بھی ان ہی دونوں ٹیموں کو ہی کھیلنا ہے تو اس کا جواب ہے کہ ہر میچ اپنی اہمیت رکھتا ہے۔ اگر کسی بھی میچ کو آسان اور غیر ضروری سمجھ کر نظر انداز کیا جائے تو اس سے آئندہ میچوں میں کمبینیشن بنانے پر اثر پڑتا ہے۔ پاکستان کو اس میچ سے ہی ورلڈکپ کا راستہ متعین کرلینا چاہیے کیونکہ ورلڈکپ کا دباﺅ کارکردگی کو خراب کرسکتا ہے۔کولمبو کی پچ ہمیشہ ملی جلی ہوتی ہے۔ بارشوں کے باعث پچ میں باﺅنس کچھ کم ہوگا جس سے بلے بازوں کو مشکلات پیش آسکتی ہیں لیکن بیٹنگ مشکل نہ ہوگی۔ سپنرز کو مدد مل سکتی ہے خاص طور سے کلدیپ یادیو اور سلمان آغا اچھی باﺅلنگ کرسکتے ہیں۔ پاکستان کا پورا زور فاسٹ باﺅلنگ پر ہے اس لیے پاکستان صرف شاداب خان کو ہی بحیثیت سپنر کھلائے گا لیکن بھارت دو سپنرز کے ساتھ میدان میں اترے گا۔کولمبو بڑے سکورز کے لیے مشہور ہے اس لیے ٹاس بہت اہم ہوگا جو بھی جیتے گا پہلے بیٹنگ کرے گا۔ اگر پاکستان پہلے کھیلتا ہے تو 325 رنز ایک قابل دفاع مجموعہ ہوگا لیکن اس تک پہنچنے کے لیے ذمہ داری سے کھیلنا ہوگا۔دو روایتی حریفوں کے درمیان سخت مقابلہ ہونے کی امید ہے لیکن پاکستان کو اس لحاظ سے برتری حاصل ہے کہ اس نے دونوں میچ واضح برتری سے جیتے ہیں۔کیا آج کا دن دونوں ٹیموں کے لیے خوش قسمت ثابت ہوسکتا ہے؟ دمکتے ہوئے ستاروں سے سجا کولمبو کا میدان ایک بار پھر خوشیوں کی نوید لےکر آرہا ہے لیکن صرف ان کے لیے جو ہارتی ہوئی بازی اپنے عزم و حوصلہ سے جیت جاتے ہیں۔