دریائے سندھ: علاقائی و عالمی مفادات

ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام


دریائے سندھ: علاقائی و عالمی مفادات


پاکستان اور بھارت کے درمیان اُنیس سو ساٹھ میں طے پانے والے سندھ طاس معاہدے (آئی ڈبلیو ٹی) کو اکثر کامیاب تعاون کا نمونہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ بات کس حد تک درست ہے یہ اپنی جگہ بحث طلب ہے تاہم حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ معاہدے (آئی ڈبلیو ٹی) نے پاک بھارت دوطرفہ تنازعات اور فوجی محاذ آرائی کو نظر انداز کیا جس کی وجہ سے اِس معاہدے پر خاطرخواہ عمل درآمد بھی نہیں ہو سکا ہے۔ دریائے سندھ صدیوں سے برصغیر کے باسیوں کی ’لائف لائن‘ رہا ہے۔ سندھ آبی گزرگاہ جنوب مغربی تبت میں واقع سندھ طاس سے نکلتی ہے۔ ہمالیہ کے دامن سے پانی کشمیر میں داخل ہوتا ہے‘ وہاں سے پنجاب سے گزرتے ہوئے بحیرہ عرب میں گرتا ہے۔ ایسی مثالیں موجود ہیں جن میں بھارت نے ’آئی ڈبلیو ٹی‘ کی خلاف ورزی کی ہے۔ سلال، بگلیہار (چناب پر بنے) اور ولار بیراج‘ کشن گنگا (دریائے جہلم پر بنے) آبی ذخائر (ڈیمز) درحقیقت آئی ڈبلیو ٹی کی کھل کھلا (دن دیہاڑے) خلاف ورزیاں ہیں۔ مذکورہ معاہدے کے تحت پاکستان کو تین مغربی دریاؤں سندھ‘ چناب اور جہلم کا کنٹرول حاصل ہے۔ پاکستان نے بھارت کی جانب سے مغربی دریاو¿ں پر ڈیموں کی تعمیر پر اعتراض کیا ہے۔ یہ ڈیم پاکستان کی طرف جانے والے پانی کے بہاو¿ کو کم کر رہے ہیں۔ ان آبی ذخائر کا مقصد پاکستان کی معیشت کو کمزور کرنا ہے۔ 

اُنیس سو ننانوے میں پاکستان نے بھارت کی جانب سے آئی ڈبلیو ٹی میں ’معمولی تبدیلیوں‘ پر سوالات اُٹھائے۔ معمولی تبدیلیاں معاہدے کی قابل قبولیت کے خلاف تھیں۔ پاکستان نے آئی ڈبلیو ٹی میں ضمیمہ جی کے آرٹیکل پانچ (2022) کی روشنی میں ثالثی عدالت کو پینل میں شامل کرنے کی درخواست کی تھی۔ ثالثی عدالت کی درخواست سے بھارت کو آگاہ کر دیا گیا۔ جس کے جواب میں بھارت نے غیر جانبدار ماہر کی موجودگی کی حمایت کی۔ آئی ڈبلیو ٹی کے مذاکرات کار ورلڈ بینک نے تنازعات کے حل کے طریقہ کار کو روکنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس تعطل کو پانچ سال سے زیادہ عرصے تک بڑھا دیا گیا تھا۔ اس دوران جب پاکستان کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے اور وہ کسی حل کے آپشن سے فائدہ نہیں اٹھا سکا تو بھارت نے اپنے منصوبوں کو جاری رکھا۔ یہ تعطل اب ختم کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد بھارت کے اس دعوے کو بھی مسترد کر دیا گیا ہے کہ پاکستان تنازعات کے حل کے لئے مرحلہ وار راستہ اختیار کرنے میں ناکام رہا ہے۔ یہ اعلان کیا گیا تھا کہ تنازعات کے حل کے لئے کوئی ’سلسلہ وار‘ پروٹوکول موجود نہیں ہے۔ مسابقتی درخواستوں کے بارے میں پاکستان نے بھارت کی جانب سے غیر جانبدار ماہر کی درخواست سے ایک ماہ قبل ثالثی عدالت میں شامل کرنے کی درخواست کی تھی لہٰذا روایت کے مطابق قانونی عمل اُس وقت فوری طور پر شروع ہوتا ہے جب قانونی مدد طلب کی جاتی ہے۔

رواں برس جنوری میں ثالثی عدالت نے اپنی کاروائی کا آغاز کیا جس کا بھارت نے حسب توقع بائیکاٹ کر رکھا ہے۔

بھارت نے پاکستان کو آئی ڈبلیو ٹی میں ترمیم کا نوٹس بھیجا تھا۔ مزید برآں‘ بھارت نے اس بات کا اظہار کیا کہ کسی بھی تیسرے فریق (یہاں تک کہ بروکر ورلڈ بینک) کی مداخلت یا ثالثی پر پابندی ہوگی یعنی بھارت اپنی شرائط کے ساتھ اِس معاہدے کو حل کرنا چاہتا ہے۔ اس کے علاؤہ بھارت نے واضح طور پر عالمی بینک اور پاکستان دونوں پر الزام عائد کیا ہے کہ انہوں نے بیک وقت کاروائی کرکے مذکورہ معاہدے کو ناکام بنایا ہے۔ بھارت نے دھمکی دی ہے کہ اگر اس کے مطالبات پورے نہیں کئے گئے تو وہ یک طرفہ طور پر اس معاہدے کو مکمل طور پر منسوخ کر دے گا۔

حال ہی میں ’دی ہیگ‘ میں قائم مستقل ثالثی عدالت (پی سی اے) نے دریائے سندھ کے طاس میں پانی کے استعمال کے حوالے سے پاکستان کی جانب سے شروع کئے گئے طریقہ کار پر بھارت کے اعتراضات کی مذمت کی تھی اُور عدالت نے پاکستان کے مؤقف کو درست قرار دیا تھا۔ پاکستان نے بھارت کی جانب سے دریائے جہلم پر ساڑھے آٹھ سو میگاواٹ کے کشن گنگا منصوبے کی تعمیر اور بھارت کے غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر میں دریائے چناب پر رتلے ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کی تعمیر کے منصوبے پر بھی اعتراض اٹھایا تھا۔ بھارت کی جانب سے معاہدے کی منسوخی کے امکان پر ’آئی ڈبلیو ٹی‘ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ اس معاہدے کو صرف اسی صورت میں ختم کیا جا سکتا ہے جب اس کی جگہ دونوں فریقوں کی جانب سے ایک اور معاہدے کا مسودہ تیار کیا جائے اور اس پر دستخط کیے جائیں۔ اگر ایسا نہیں ہوتا ہے اور کوئی بھی فریق اسے منسوخ کرتا ہے تو مذکورہ فریق معاہدے کی خلاف ورزی کرے گا لہٰذا اس معاہدے کو یک طرفہ طور پر منسوخ کرنے کا سوال ہی متروک ہو جاتا ہے تاہم مذکور معاہدے میں ترمیم کے سوال کے بارے میں‘ آب و ہوا کے بحران اور دیگر کثیر الجہتی چیلنجوں کے پیش نظر دونوں فریقوں کو ان کی اشد ضرورت ہے۔ خطے کو درپیش موسمیاتی چیلنجز کے پیش نظر پانی کے مسئلے کو لاپرواہی کا تنازعہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔

پانی دونوں جوہری ممالک کے درمیان تنازعہ کی وجہ نہیں ہونا چاہئے بلکہ ایک علاقائی نقطہ نظر اپنانے کی ضرورت ہے جس میں باہمی تعاون کی حکمت عملی کے ذریعے پانی اور آب و ہوا کی تبدیلی کے مسائل کو حل کیا جانا چاہئے اُور یہ صرف پاکستان اُور بھارت (دو ہمسایہ ممالک) ہی نہیں بلکہ تحفظ ماحول کے نکتہ¿ نظر سے بالخصوص خطے اُور بالعموم پوریدنیا کے مفاد میں ہے۔
....