صحافتی منظرنامہ

ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام


صحافتی منظرنامہ


صحافت کے ذریعے عوام الناس کی ذہن سازی (رائے سازی) کی ابتدا ’اپنی تعلیم‘ سے ہوتی ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کوئی شخص کسی بھی معاملے میں رائے نہ رکھتا ہو لیکن دوسروں کی رائے پر اثرانداز ہونے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ دوسری بات ابلاغ کے وسیع اُور محدود دائرے کی ہے۔ وسیع دائرے میں لکھنے والے حالات حاضرہ کی بنیاد پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں اُور یہی حالات حاضرہ سے آگاہی اُور اِس کی وقعت یا وسعت ڈیجیٹل صحافت میں ’ٹرینڈ‘ کہلاتا ہے۔


لکھنے کے عمل کا آغاز صرف مؤقف ہی سے نہیں بلکہ لکھنے کی حکمت ِعملی سے بھی ہوتا ہے اُور چونکہ مختلف اوقات اُور سیاسی حالات میں کسی نہ کسی صورت پابندیاں (سنسرشپ) بھی عائد ہوتی ہے تو اِس لئے کسی لکھاری کے لئے لکھتے ہوئے اُن پہلوؤں کو بھی مدنظر رکھنا ہوتا ہے۔ صحافت کے طلبہ کے لئے مشورہ ہو سکتا ہے کہ وہ شروع دن سے بین السطور خیالات کا اظہار کرنے کی مشق کریں اُور اگر لکھنے کی اِس ایک خصوصیت (شاخ) پر اُنہوں نے مہارت حاصل کر لی تو عملی زندگی میں درپیش بہت سے چیلنجز کا مقابلہ کرنا اُن کے لئے نسبتاً آسان ہو جائے گا۔

 
زمانۂ طالب علمی میں درس و تدریس کے دوران جس ایک عمومی غلطی کا ارتکاب (شاید غیردانستہ طور پر) کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ طلبہ کو صرف جوابات لکھنے کے لئے سوچ بچار کی تعلیم دی جاتی ہے جبکہ سُوال کرنے اُور سوالات کے درپردہ واضح اُور تنقیدی سوچ کو پروان نہیں چڑھایا جاتا ہے۔ اگر صحافت کا احاطہ کسی ایک عمل یا جملے میں کیا جائے تو وہ ’بات چیت (انٹرویو)‘ ہوگا۔ اِنہی انٹرویوز کے اردگرد صحافت گھومتی ہے لہٰذا سب سے زیادہ مطالعہ اُور مشق کے ذریعے سوالات کی تیاری پر توجہ دینی چاہئے۔ اِس سلسلے میں ایک سیدھا سادا‘ آسان اصول ذہن نشین رہے کہ وہ سُوال پوچھنا ہی نہیں چاہئے جس کا جواب پہلے سے معلوم نہ ہو۔ صحافت کے طلبہ جوابات سے نہیں بلکہ سُوالات سے علم اخذ کرنے کا ہنر سیکھ لیں تو اُنہیں عملی زندگی یا صحافت کے کسی بھی شعبے میں کام کرتے ہوئے مشکل پیش نہیں آئے گی۔


صحافت کے روائتی اُور غیر روائتی اسلوب ہیں۔

اخبارات (اشاعتی اسلوب)‘ ٹیلی ویژن اُور ریڈیو (نشریاتی اسلوب) اِس کے روائتی پہلوؤں کا اَحاطہ کرتے ہیں جبکہ غیرروائتی اَسلوب میں ’ویب سائٹس اُور سوشل میڈیا‘ جیسی ترقی یافتہ اشکال ہمارے سامنے ہیں‘ جہاں لمحہ بہ لمحہ جاری ’رپورٹنگ‘ کا معیار جیسا بھی ہے لیکن اِس نے روائتی صحافتی اسلوب کو کہیں نہ کہیں چھوتے (ٹچ کرتے) ہوئے متاثر ضرور کیا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ کسی بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے ذریعے رائے کے اظہار (پوسٹ) اُور ایک خبر کے درمیان فرق کسی ’فائر وال‘ جیسا ہوتا ہے۔ کمپیوٹرز کی دنیا میں ’فائر وال‘ ایک خاص قسم کے پروگرام کو کہتے ہیں جو پس پردہ کام کرتے ہوئے غیرضروری معلومات کے تبادلے کو روکتا ہے اُور ایک حصار کی صورت صارف کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ اگر پاکستان کے صحافتی منظرنامے پر نگاہ کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ روائتی خبرنگاری اُور غیرروائتی اسلوب یعنی سوشل میڈیا کے لئے نکتۂ نظر کے اظہار میں زیادہ فرق نہیں رہا۔ اِس بات کو سمجھنے کے لئے ’فیس ویلیو (face value)‘ سے متعلق اصول کو سمجھنا ہوگا۔ الیکٹرانک جرنلزم (ٹیلی ویژن‘ ریڈیو اُور مائیکرو ویڈیو بلاگنگ) کے ذریعے اگر تجزیہ کاری ہو رہی ہے تو یہ تجزیہ کار دیگر سرگرمیوں جیسا کہ خبریں پڑھنے یا کسی ایسے پروگرام کو بطور میزبان (اینکر) پیش نہ کریں جس میں دیگر صائب الرائے افراد اپنے اپنے خیالات کا اِظہار کر رہے ہوں۔ اِسی اصول کا اطلاق ایک سے زائد اظہار کے پیرائیوں پر بھی ہوتا ہے کہ اگر کسی صحافی (مرد یا عورت) نے الیکٹرانک میڈیا کا انتخاب کیا ہے تو وہ پرنٹ میڈیا کے ذریعے رائے کا اظہار نہ کرے اُور اگر پرنٹ میڈیا (اخبارات‘ جرائد و رسائل) کے ذریعے ’ذہن سازی (رائے سازی)‘ کر رہا ہے تو پھر اُسے چاہئے کہ اپنے انتخاب کردہ ذریعے (میڈیم) ہی سے منسلک رہے مثلاً کسی ٹیلی ویژن پروگرام کی میزبانی کے ساتھ اُسے اخبار کے لئے کالم نہیں لکھنا چاہئے۔ اِس اصول سے بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اگر صلاحیت کا خون ہو رہا ہے لیکن درحقیقت یہ صلاحیت کا نہیں بلکہ صحافت کا خون ہونے سے روکنے کے لئے ہے کیونکہ خبر سے تجزیہ اُور تجزیئے سے کسی مؤقف کی تائید و حمایت (رائے) کا اظہار اگر ایک سے زیادہ طریقوں سے کیا جائے تو اِس میں اندیشہ رہتا ہے کہ غیرجانبدار رہنے اُور مقصدیت جیسے اہداف کا حصول ممکن نہیں رہتا اُور کہیں نہ کہیں ’غلطی‘ ہو ہی جاتی ہے۔ عصر حاضر کے بہت سے صحافیوں‘ اینکر پرسنز اُور تجزیہ کاروں (کالم نویسوں) نے اپنے اپنے یوٹیوب چینلز کھول رکھے ہیں جہاں وہ ’وی لاگز (vlogs)‘ کے ذریعے بہت ہی ”خاص (خصوصی) خبریں“ دینے کا دعویٰ کرتے ہیں اُور پھر اُن خبروں کو جنہیں وہ ’خصوصی‘ قرار دیتے ہیں ایک طرف رکھ کر‘ مین سٹریم میڈیا‘ میں دیگر موضوعات سے متعلق پروگرام کر رہے ہوتے ہیں یا اخبارات کے لئے تجزئیات تحریر کر رہے ہوتے ہیں تو اِس طرح اُن کی شخصیت کے فکری پہلوؤں میں وہ طاقت نہیں رہتی جو فرد‘ افراد اُور معاشرے کی رائے تبدیل کرنے کی طاقت رکھتی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہم اپنے اردگرد دیکھتے ہیں تو ہر دن پہلے سے زیادہ صحافت ہوتی دکھائی دیتی ہے لیکن اُس کی وجہ سے فرد یا معاشرے پر خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہو رہے بلکہ صحافیوں کی طرح قارئین و ناظرین اُور سامعین بھی فکری طور پر تقسیم دکھائی دیتے ہیں اُور کسی ایک رائے سے متفق ہونے کے باوجود بھی اُس سے اتفاق نہیں کر رہے ہوتے۔ اِس پورے منظرنامے میں ’خبر‘ اُور ’رائے‘ کے درمیان زیادہ فرق نہیں رہا اُور معاشرہ عدم برداشت کی طرف بڑھ رہا ہے۔


صحافت کا بنیادی مقصد عام آدمی (ہم عوام) اُور حکمرانوں تک درست معلومات کا پہنچانا ہوتا ہے تاکہ وہ بالترتیب اپنی ترجیحات اُور فیصلہ سازی سے قبل اہداف کے تعین میں رہنمائی حاصل کر سکیں لیکن اگر صحافت ’واٹس ایپ‘ گروپوں میں بکھری معلومات کو مزید پھیلانے (شیئرنگ) کی حد تک محدود یا وسیع ہو گئی ہے تو اِس سے اُبھرنے والے منظرنامے میں معلومات اور تجزئیات کی اجارہ داری پر بھی حرف آیا ہے۔ تنقیدی تجزئیات وقت کے ساتھ معدوم ہو رہے ہیں‘ جو دیرینہ خیالات‘ پیشگی تصورات یا عمومی و خصوصی مسائل سے متعلق پیدا کرنے والے خیالات پر سوال اٹھاتے تھے اُور سوال کرنے کا ضروری عمل جو کہ صحافت کی بنیاد ہے اُس کا تانہ بانہ مسلسل رہنا چاہئے۔ اگر معاشرے میں عدم برداشت‘ عدم رواداری یعنی انتہا پسندی پھیل رہی ہے تو اِس کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی بجائے حالات کے تنقیدی جائزے اُور رائے سازی کو ہر دن پہلے سے زیادہ محدود کیا جا رہا ہے اُور یہی وہ مرحلۂ فکر ہے جہاں صرف صحافتی اصولوں (قواعدوضوابط) ہی کا نہیں بلکہ صحافتی اسلوب (اظہار رائے کے مختلف پیرائیوں) پر بھی نظرثانی ہونی چاہیئے۔
....