پیسے درختوں پر نہیں اگتے 

سابق صدرغلام اسحاق خان کہا کرتے تھے پیسے درختوں پر نہیں ا گتے لہٰذا حکومتی اور ذاتی دونوں امور میں کفایت شعاری ضروری ہوتی ہے‘ وہ یہ بھی کہا کرتے تھے کہ ملک ریونیو سے چلا کرتے ہیں اور ریونیو ٹیکسوں کی وصولی سے ہوتا ہے ‘صاحب ثروت لوگوں اور زیادہ آمدنی والے افراد یا طبقے سے ان کی آمدنی کی مناسبت سے ٹیکس وصول کیا جانا چاہیے۔ مقام افسوس ہے کہ من حیث القوم ہم نے ملک میں ٹیکس کلچر کو فروغ نہیں دیا اور ہمارے سرمایہ دار قانونی موشگافیوں کے بل بوتے پر کم ٹیکس ادا کرتے ہیں ‘کیا ان لوگوں کو حصہ بقدر جثہ کے حساب سے ٹیکس ادا نہیں کرنا چاہیے جو محل نما مکانات میں رہتے ہیں‘ جن کے بنگلوں کے پورچ میں ایک سے زیادہ لگژری گاڑیاں کھڑی ہوتی ہیں ‘جن کے بال بچے ملک کے اندر ان سکولوں میں پڑھتے ہیں کہ جن کی فیس ڈالروں میں لی جاتی ہے جو ہر سال سیر سپاٹے کے واسطے یورپ یا امریکہ کی سیر کو جاتے ہیں جو دولت پر سانپ بن کر بیٹھے ہیں جن کو بنکوں میں رکھی گئی رقم سے صرف سود کی مد میں ہر سال لاکھوں روپے کی آمدنی آتی ہے ان کی آمدنی پہلے سے ہی دستاویزی یعنی documented ہے‘ ان پر تو ٹیکس اتھارٹی بغیر کسی انکوائری کے بھاری انکم ٹیکس نافذ کر کے اسے ریکور کر سکتی ہے‘ پھر دیر کس بات کی ‘کیا یہ ضروری نہیں کہ جرمنی کی طرح ہم بھی ملک۔میں standard of living tax لگائیں اگر کوئی اپنی آمدنی سے پرتعیش زندگی گزارنا چاہتا ہے تو بے شک گزارے پر اس کے مطابق سرکار کو ٹیکس ادا کرے ‘ یہ ہماری بد قسمتی نہیں تو پھر کیا ہے کہ موٹی موٹی آمدنی والے لوگوں کو خیال تک نہیں آتا کہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں عام آدمی کی فلاح و بہبود کے واسطے کوئی سکول ‘ڈسپنسری ‘ یتیم خانہ کھول دیں۔غلام اسحاق خان کا اس کالم کی ابتدائی سطور میں ہم نے نام اس لئے لکھا کہ اپنے لمبے سرکاری ملازمت اور پھر سیاست کے ادوار میں وہ ملک کے کلیدی مناصب پر فائز رہے ‘پر جب وہ ریٹائر ہوئے تو ان کی وہی اراضی تھی جو ان کو وراثت میں اپنے والد سے ملی تھی اس میں ایک انچ کا بھی اضافہ نہیں ہوا تھا‘ دیانتداری کی اس سے بڑی مثال شاذ ہی کسی کو ملے ۔