کابل اور حق ہمسائیگی 

 جب تک سوشل میڈیا بے لگام رہے گا اور مادر پدر آزاد قسم کے پروگرام پیش کرتا رہے گا قوم ذہنی انتشار کا شکار رہے گی‘ سنسر شپ کو اچھا نہیں تصور کیا جاتا پر اس کی مادر پدر آزادی کو بھی ملک کے سنجیدہ طبقے کوئی اچھی نظر سے نہیں دیکھتے خاص طور پر اس پر دکھلائے جانے والے وہ پروگرام جو گھر کے بزرگ اپنے گھر کے اہل و عیال کے ساتھ اکھٹے بیٹھ کر دیکھنے میں شرم محسوس کریں ذومعنی مکالموں اور بے حیائی پرمبنی پروگراموں پر سنسر شپ کی قینچی چلانے کی ضرورت ہے ۔وزیر دفاع ایک سے زیادہ مرتبہ یہ کہہ چکے ہیں کہ افغانستان کی حکومت اپنی سر زمین سے دہشت گردوں کے ٹھکانے ختم نہیں کر رہی اور اس ضمن میں اس نے پاکستان کی گذارشات کو در خور اعتنا نہیں سمجھا انہوں نے ایک مرتبہ یہ بھی کہا تھا کہ اگر کابل نے اپنا رویہ نہ بدلا تو افغانستان اور بھارت کی دو طرفہ تجارت کے لئے پاکستان راہداری ختم کر سکتا ہے‘ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ کب اپنے اس بیان کو عملی جامہ پہنائیں گے‘ وہ یہ نہ بھولیں کہ پاکستانی عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے وہ اپنے شہیدوں کی لاشیں دفناتے دفناتے تھک چکے ہیں۔ان جملہ ہائے معترضہ کے بعد چند تازہ ترین قومی اور عالمی معاملات پر ایک طائرانہ نظر ڈالنا بے جا نہ ہوگا ۔غیر مجاز افسروں سے گاڑیاں واپس لینے کے حکومتی فیصلے کے بارے میں یہ عرض ہے کہ جو سرکاری افسر سرکاری گاڑیاں رکھنے کے مجاز ہیں‘ ان میں ایک اکثریت ان گاڑیوں کا غلط استعمال کرتی دیکھی گئی ہے‘ کیا یہ حقیقت نہیں کہ ان گاڑیوں کو اکثر ذاتی کاموں کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے‘ جیسے ان کے بال بچوں کو سکول جانے اور لانے کے لئے اور ان کی بیگمات کو شاپنگ کے لئے لے جانے کے واسطے ‘تجربہ یہ بتاتا ہے کہ ان گاڑیوں کے ڈرائیور بھی گاڑیوں کی مرمت کے نام پر اپنے محکموں سے بھاری رقوم نکلوا لیتے ہیں ‘ اسلئے اگر گاڑیاں رکھنے کے مجاز سرکاری اہلکاروں کو گاڑیاں الاٹ کرنے کے بجائے ان کو ماہانہ تنخواہ کے ساتھ ایک فکسڈ ٹرانسپورٹ الاﺅنس دے دیا جائے جو ان کو ان کے گھر اور ان کے دفتر کے فاصلے کو مدنظر رکھ کر مقرر کیا جا سکتا ہے تو اس سے سرکاری خزانے پر کافی حد تک بوجھ ہلکا کیا جا سکتا ہے ویسے پہلے ہی سے ان کو سرکاری دوروں کے واسطے ٹی اے ڈی اے کی شکل میں ایک مناسب رقم فراہم کی جا رہی ہے ‘یہ باتیں گو کہ چھوٹی چھوٹی ہیں پر بقول کسے قطرے قطرے سے ہی تو دریا بنا کرتے ہیں۔ ایک لمبے عرصے سے وطن عزیز میں عوارض قلب اور کینسر کی بیماریوں کے علاوہ دو چیزوں سے بھی اموات میں اضافہ ہو رہا ہے ایک تو سڑکوں پر ٹریفک کے حادثات ہیں اور دوسرا ممنوعہ بور کے اسلحہ کا استعمال اور ان دونوں کے تدارک کے واسطے کسی بھی متعلقہ سرکاری ادارے نے خاطر خواہ توجہ نہیں دی نہ کم عمر افراد کو ڈرائیونگ لائسنس دینے کا سلسلہ بند ہوا نہ اوور سپیڈنگ پر قابو پایا جا سکا ہے اور نہ مکینکلی ان فٹ گاڑیوں کو سڑکوں پر چلنے سے روکا جا سکا ہے اور نہ ہی بسوں کے مالکان کو منع کیا جا سکا ہے کہ وہ لمبے روٹ پر اپنے ڈرائیوروں کو بغیر مناسب نیند کے بغیر نہ بھیجا کریں ‘اسی طرح ممنوعہ بور کے استعمال پر نہ جانے حکام کیوں پابندی نہیں لگاتے اور مناسب قانون سازی کر کے کلاشنکوف جیسے اسلحے کے استعمال کو صرف اور صرف افواج پاکستان‘ پولیس اور پیرا ملٹری فورسز تک محدود کیوں نہیں کرتے اور ایک کریک ڈاﺅن کے ذریعے یہ اسلحہ ریکور کر کے اسے صرف مندرجہ بالا فورسز کے حوالے کیوں نہیں کرتے‘ دہشتگردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے پیش نظر ایف سی میں مزید سولجر کی بھرتی کے بارے میں درج ذیل معروضات عرض ہیں‘ بے شک نہ صرف بلوچستان بلکہ خیبر پختونخوا میں بھی فرنٹیر کور میں مزید سولجرز کی بھرتی ضروری ہے۔
 ایف سی میں نفری بڑھانے کیساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ان صوبوں میں تعنیات ایف سی پلاٹونوں کو بار بار امن عامہ کی ڈیوٹی پر پولیس کی معاونت کے واسطے ریونیو ڈسٹرکٹس نہ بھیجا جائے کہ اس عمل سے انکی بنیادی ذمہ داری میں خلل پڑتا ہے اس عمل کو صرف اس طریقے سے روکا جا سکتا ہے کہ پولیس کی استطاعت بڑھائی جائے اور ر صوبہ اپنی اپنی پولیس فورس کی بھرتی میں خصوصاً نچلے کیڈرز میں بھرتی کا معیار بہتر کرے۔ اور جس طرح افواج پاکستان کے نچلے کیڈرز میں جوان بھرتی کئے جاتے ہیں بالکل اسی طرز پر پولیس میں بھی صرف اور صرف میرٹ پر بھرتی ہو اور اس بھرتی میں کسی سیاسی مداخلت کی اجازت نہ دی جائے اور پھر ان کی ٹریننگ اور پبلک ڈیلنگ کو بھی بہتر کیا جائے تاکہ یہ اپنا کام خود بطریق احسن کر سکیں اور ضلعی انتظامیہ کو بار بار پولیس کی معاونت کے واسطے فرنٹیئر کور کی پلاٹونز کو نہ بلانا پڑے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔