سیاست اور ناقابل اعتبار موسم 

مارچ کا مہینہ جو کبھی بہار کا مہینہ ہوا کرتا تھا اب کی دفعہ سردی کھا گئی ‘موسمیاتی تبدیلی نے کیا کیا رنگ نہیں دکھایا ایسے موسم کو ملک کے بڑے بوڑھوں نے اس سے پہلے کبھی بھی نہ دیکھا تھا ‘ محکمہ موسمیات والے تو امسال موسم گرما میں شدید گرمی کی پیشنگوئی کر رہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ وطن عزیز کے شمال میں گلیشیرز کے پگھلنے سے ملک کے دامانی علاقے میں سخت سیلابی ریلوں کا بھی کہہ رہے ہیں‘ جس طرح کہ ملک کا موسم بے ہنگم اور نا قابل اعتبار ہو گیا ہے بالکل اسی طرح ملک کی سیاسی فضا کا بھی یہی حال ہے ‘آئیے ایک نظر چند تازہ ترین اہم ملکی اور عالمی معاملات پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں۔ کوئی بھی کھیل ہو‘ ٹیم کے کپتان کو بار بار تبدیل کرنا ٹیم کی کارکردگی کو جہاں متاثر کرتا ہے وہاں کپتان کی خود اعتمادی کو بھی زک پہنچاتا ہے‘ بابر اعظم کو ہٹا کر شاہین شاہ آفریدی کو کپتان لگانا اور پھر با بر اعظم کو دوبارہ کپتان لگانے کے لئے شاہین آفریدی کو کپتانی سے تھوڑے ہی عرصے کے بعد ہٹانا ناقابل فہم بات ہے جو پاکستان کرکٹ ٹیم کے وسیع تر مفاد کے واسطے اچھی بات نہیں تھی ۔آئی ایم ایف کی محتاجی سے پاکستان کی جان کب چھوٹے گی ؟سر دست اس سوال کا جواب اس لئے نہیں دیا جا سکتا کہ ملک کے کسی بھی مایر معشیت نے ابھی تک کوئی ایسا جامع اور مدلل معا شی فارمولا پیش نہیں کیا کہ جو آئی ایم ایف کی بیساکھی کے بغیر اس ملک کی معشیت کو سہارا دے سکے ۔سندھ اور جنوبی پنجاب میں کچھ عرصے سے بعض علاقوں میں ڈاکو راج ہے اور سرکاری سڑکوں پر بھی ڈاکو راہ گیروں کو بر سر عام لوٹ رہے ہیں جس کی وجہ سے ان دونوں صوبوں کی پولیس کی کارکردگی پر کئی سوالیہ نشانات اٹھ رہے ہیں ‘ اس قسم کی صورت حال ہم نے ماضی قریب میں کبھی نہ دیکھی تھی۔ امریکی صدر بائیڈن کے اس بیان پر بغلیں بجانے کی ضرورت نہیں کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ کھڑارہے گا‘ امریکہ کے ماضی کا اگر ریکارڈ دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس کے ارباب اقتدار اس قسم کے بیانات اس وقت دیتے ہیں جب ان کو اس خطے میں اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے واسطے پاکستان کی معاونت کی ضرورت پڑتی ہے اور جب ان کا مقصد پورا ہو جاتا ہے تو وہ پھر ہم سے ایسے آنکھیں پھیر لیتے ہیں کہ جیسے ہمیں جانتے تک ہی نہیں ‘ اس کے بر عکس چین کی لیڈرشپ نے 1949ءسے لے کر اب تک پاکستان کے ساتھ اپنے دوستانہ تعلقات میں یکسوئی کا مظاہرہ کیا ہے ‘دوستی ہو تو ایسی ہو‘ چین نے بشام میں اگلے روز اپنے انجینئرز کی ہلاکت کے واقعے کی پروا نہ کرتے ہوئے تربیلا توسیعی منصوبے پر کام دوبارہ شروع کرنے کی ہدایات جاری کر دی ہیں ‘جس سے پاکستان دشمن عناصر کی امیدوں پر پانی پھر گیا ہے جو یہ چاہتے تھے کہ دہشت گردی کے مذکورہ واقعہ کے بعد چین پاکستان میں سی پیک کے تحت ہونے والے کام بند کر دے گا ‘ پاکستان کے اندر موجود چینیوں کی حفاظت کے واسطے حکومت کو اب مزید فول پروف سکیورٹی کا انتظام کرنا ہوگا کہ چین کی معاونت سے جو منصوبے زیر تکمیل ہیں وہ جلد مکمل ہوں کہ انکے ساتھ پاکستان کی معیشت کی ترقی جڑی ہوئی ہے ‘جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے پاکستان بے شک اس سے دو طرفہ مفادات کے اندر اپنے تعلقات خوشحال رکھے پر کبھی بھی اس کے جھانسے میں آ کر کوئی ایسا قدم نہ اٹھائے کہ جس کا مقصد چین یا روس کو کسی قسم کی کوئی زک پہنچانا ہو‘ وطن عزیز کے ان افراد یا طبقوں کے لئے یہ امر لمحہ فکریہ فراہم کرتا ہے جو پارلیمانی جمہوریت کے شیدائی ہیں کہ ایک حالیہ مستند سروے کے مطابق ملک میں جمہوری نظام سے غیر مطمئن افراد کی شرح میں اضافہ ہوا ہے ‘اس میں کوئی شک نہیں کہ جس قسم کا جمہوری نظام وطن عزیز میں چلایا جا رہا ہے وہ ڈلیور نہیں کر رہا اور عام آدمی کی زندگی بہتر ہونے کے بجائے اجیرن ہو رہی ہے۔