ہیپاٹائٹس بی جگر کا ایک دیرینہ اور پیچیدہ انفیکشن ہے جس کا ابھی تک کوئی مکمل علاج نہیں ہے، لیکن حالیہ تحقیق میں طبی ماہرین اس کے علاج میں نمایاں پیشرفت کے قریب پہنچ گئے ہیں۔
چینی ماہرین کی قیادت میں عالمی محققین کی ٹیم نے ہیپاٹائٹس بی کے "فعال علاج" میں کامیابی کا دعویٰ کیا ہے۔ ان محققین نے ایک مالیکیول، Xalnesiran، دریافت کیا ہے جو اکیلا یا دیگر ادویات کے ساتھ استعمال کرنے سے مدافعتی نظام کو زیادہ مؤثر بناتا ہے۔ اس طریقہ علاج کے ذریعے تقریباً ایک تہائی مریضوں کو اس مرض سے نجات دلانے میں کامیابی حاصل ہوئی۔
ہیپاٹائٹس بی کا شکار دنیا بھر میں 25 کروڑ سے زائد افراد ہیں، اور اس کے باعث ہونے والی 83 فیصد اموات ہیپاٹائٹس بی کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ یہ مرض عام طور پر جگر کے خلیات میں چھپ جاتا ہے، جس کی وجہ سے اس کا علاج بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ اس کی علامات کئی سالوں تک ظاہر نہیں ہوتیں اور مریض کو علم نہیں ہوتا کہ ان کا جگر متاثر ہو رہا ہے۔
اس بیماری کی علامات اور پیچیدگیوں کو اینٹی وائرل ادویات کے ذریعے قابو میں رکھا جاتا ہے، لیکن ایچ بی وی (ہیپاٹائٹس بی وائرس) کا مکمل خاتمہ نہیں ہوتا، اور مریضوں کو زندگی بھر ادویات استعمال کرنی پڑتی ہیں۔ تقریباً ایک دہائی کی تحقیق کے بعد، سائنسدانوں نے اس بیماری کے علاج میں پہلی بڑی کامیابی حاصل کی ہے، جسے انہوں نے 32 فیصد مریضوں کی صحت یابی کی صورت میں ایک اہم پیشرفت قرار دیا ہے۔
اس تحقیق کے دوران 159 مریضوں پر ایک کلینیکل ٹرائل کیا گیا، جس میں انہیں مختلف ادویات دی گئیں۔ 48 ہفتوں بعد یہ پتہ چلا کہ 32 فیصد مریضوں کو اینٹی وائرل ادویات کی ضرورت نہیں رہی، جس کا مطلب تھا کہ وہ علاج کے بعد صحت یاب ہو گئے ہیں۔
یہ پہلا موقع ہے جب ہیپاٹائٹس بی کے کسی علاج سے 30 فیصد سے زیادہ مریضوں کو بیماری سے نجات حاصل ہوئی ہے۔ ماہرین کے مطابق اس تحقیق کے نتائج دائمی ایچ بی وی انفیکشن کے علاج میں ایک نئے دور کا آغاز ہو سکتے ہیں۔ تاہم، ابھی یہ علاج مکمل طور پر مثالی نہیں اور بعض مریضوں کو دوبارہ روایتی اینٹی وائرل ادویات کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
اس تحقیق میں مزید کلینیکل ٹرائلز کی ضرورت ہے تاکہ اس علاج کے متبادل طریقوں کا جائزہ لیا جا سکے۔ ہیپاٹائٹس بی کے پھیلاؤ کی اہم وجوہات میں متاثرہ خون کی منتقلی، آلودہ سرنجوں کا استعمال اور متاثرہ ماں سے بچے میں منتقلی شامل ہیں۔
یہ تحقیق نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن میں شائع ہوئی ہے۔