مصنوعی ذہانت: انقلاب یا استحصال؟

ڈیجیٹل دور میں دنیا تیزی سے نئی شکل و صورت اختیار کر رہی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب مصنوعی ذہانت یعنی آرٹی فیشل انٹیلی جنس (اے آئی) صرف سائنس فکشن کی کتابوں یا مہنگی تحقیقاتی لیبارٹریوں تک محدود تھی لیکن آج یہ ہر شعبہئ زندگی کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ معیشت، معاشرہ، حتیٰ کہ حکومتیں بھی اب اس کی مرہونِ منت ہیں۔ پاکستان کے لئے سوال یہ نہیں کہ مصنوعی ذہانت قابل عمل ہے یا نہیں بلکہ یہ ہے کہ کیا ہماری روایتی بیوروکریسی اور کمزور ادارے اس طاقتور ٹیکنالوجی کو اپنا سکتے ہیں؟نجی شعبہ پہلے ہی تبدیلی کا مشاہدہ کر رہا ہے۔ ہمارے سوشل میڈیا فیڈز، آن لائن خریداری کے رجحانات اور صحت کی تشخیص سب اے آئی کے زیرِ اثر ہیں۔ اب حکومتیں بھی اس جانب متوجہ ہو رہی ہیں، خاص طور پر وہ ممالک جو انتظامی نااہلی، آبادی کے دباؤ اور شہری عدم اطمینان کا سامنا کر رہے ہیں اور ایسے ممالک کی فہرست میں پاکستان شامل ہے۔ پاکستان کا بیوروکریٹک نظام، جو نوآبادیاتی دور کی میراث ہے، آج بھی کاغذی کاروائی، مرکزیت اور عوامی مسائل سے کٹی ہوئی سوچ میں جکڑا ہوا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ عوام کو دی جانے والی خدمات اور سہولیات ناکافی و غیرمعیاری ہیں اور یہی وجہ ہے کہ عوام کا سرکاری اداروں پر اعتماد نہیں رہا۔ ایسے میں اگر مصنوعی ذہانت کو درست طور پر نافذ کیا جائے تو یہ گورننس میں انقلاب لا سکتی ہے۔ اے آئی کے بے شمار فوائد ہیں۔ صحت عامہ میں وباؤں کی پیشگی شناخت، زراعت میں موسمیاتی خطرات کی پیش گوئی اور فلاحی اسکیموں میں شفافیت وغیرہ یہ سب ’آے آئی‘ سے ممکن ہیں مثلاً بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں بدعنوانی کے سدباب کے لئے اے آئی کی مدد سے مستحقین کی تصدیق اور دھوکہ دہی کی فوری نشاندہی کی جا سکتی ہے۔ پالیسی سازی کی سطح پر بھی اے آئی قابلِ قدر معاون بن سکتا ہے۔ غربت کے رجحانات، تعلیمی کارکردگی اور سماجی ناہمواریوں کا گہرا تجزیہ آن کی آن میں کرنا ممکن ہو چکا ہے مگر یہ سب تبھی سودمند ہو گا جب ٹیکنالوجی کو احتیاط، قانون سازی اور شفافیت کے ساتھ اپنایا جائے۔یہاں بہت سے سوالات اور خدشات بھی جنم لیتے ہیں۔ پاکستان میں ڈیٹا پرائیویسی کا قانون ہی نہیں۔ ریاستی اور نجی ادارے شہریوں کا ڈیٹا جمع کرتے ہیں لیکن یہ معلومات کیسے ذخیرہ ہوتی ہیں؟ کہاں جاتی ہیں؟ کس کی اجازت سے محفوظ ہوتی یا نہیں؟ یہ باتیں کوئی نہیں جانتا۔ ایسے میں اگر صحت، تعلیم یا پولیسنگ جیسے حساس شعبوں میں بغیر احتیاط کے اے آئی کو متعارف کرایا جائے، تو یہ نگرانی اور جبر کا نیا ذریعہ بن سکتا ہے۔ اے آئی کے الگورتھمز بھی انسانی تعصبات سے پاک نہیں۔ اگر ان کو غیر جانبدار ڈیٹا کے بجائے پاکستان جیسے طبقاتی و نسلی تقسیم والے معاشرے کے اعداد و شمار کو مدنظر رکھتے ہوئے نتائج تخلیق کرنے کا کہا جائے تو نتیجہ امتیازات کی آٹومیشن کی صورت میں نکل سکتا ہے اور اگر یہ سب ایک ایسے نظام میں ہو جہاں شفافیت اور احتساب کا تصور کمزور ہو، تو عوامی اعتماد کا مزید زوال یقینی ہے۔پاکستان کو فوری اور مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے۔ پہلا قدم ڈیٹا پروٹیکشن سے متعلق قانون سازی ہونی چاہئے۔ ایک ایسا قانون جو ڈیٹا جمع کرنے‘ اُسے محفوظ رکھنے اور اس کے غلط استعمال پر واضح سزائیں متعین کرے۔ دوسرا، ایک خودمختار ریگولیٹری ادارہ جو عوامی شعبے میں اے آئی کے استعمال کی نگرانی کرے۔ تیسرا قدم صلاحیت سازی ہے۔ سرکاری ملازمین کو اے آئی کی تفہیم، اس کے اخلاقی استعمال اور انسانی نگرانی کی اہمیت سے روشناس کرانا بھی یکساں اہم و ضروری ہے۔ صرف آٹومیشن نہیں، فہم اور فہم کے ساتھ ٹیکنالوجی کا استعمال ہی ترقی کی ضامن ہو سکتا ہے۔ چوتھا قدم جمہوری شمولیت ہو سکتی ہے۔ عوام کی آواز سنے بغیر‘ عوام کی مشاورت کے بغیر‘ مصنوعی ذہانت کا استعمال صرف ٹیکنوکریٹک ایجنڈا بن کر رہ جائے گا، جو جمہوریت کو مزید کمزور کرے گا اور آخر میں، پاکستان کو اپنے مقامی تناظر کے مطابق حل دریافت کرنا ہوں گے۔ تجارتی راہداریوں سے الگورتھم تک کا سفر صرف تکنیکی انقلاب نہیں بلکہ سیاسی فیصلہ بھی ہے جو یہ طے کرے گا کہ پاکستان میں کون شامل ہے، کون کون نظر انداز ہے اور کس کس پر نظر رکھی جاتی ہے۔ اگر ہم نے یہ فیصلہ احتیاط، اخلاقیات اور شفافیت سے نہ کیا، تو اے آئی اصلاح کا ذریعہ نہیں، استحصال کا ہتھیار بن جائے گی۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر جنید زاہد۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)