نئی اقتصادی سرحد

کئی دہائیوں تک پاکستان کو ایسے ملک کے طور پر دیکھا جاتا رہا ہے جہاں کا حکومتی اور بیوروکریٹک نظام ریڈ ٹیپ یعنی فالتو اور غیرضروری رسمی کاروائیوں میں جکڑا ہوا ہے۔ یہ نظام نئی سوچ، جدید ٹیکنالوجی اور اصلاحات کے خلاف مزاحمت کرتا رہا، جس کے باعث ملک کی انتظامی مشینری پر اندرون و بیرون ملک سے شدید تنقید کی جاتی ہے۔ ناقدین کا ماننا تھا کہ پاکستان پرانی پالیسیوں اور فرسودہ طریقہئ کار پر کاربند رہتے ہوئے عالمی ڈیجیٹل ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گیا ہے تاہم حالیہ برسوں میں پاکستان نے اس تصور کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔ آج پاکستان عالمی ڈیجیٹل معیشت میں غیر متوقع قائدانہ کردار ادا کرتا دکھائی دیتا ہے۔ پاکستان کرپٹو کونسل (PCC) ٹیکنالوجی کی دنیا میں داخل ہونے کے سنجیدہ قومی ارادوں کا عکاس ہے۔مارچ 2025ء میں قائم ہونے والی پاکستان کرپٹو کونسل کا قیام ایسے وقت میں ہوا جب دنیا بھر میں کرپٹو کرنسی اور بلاک چین ٹیکنالوجی میں نئی جہتوں کی تلاش جاری تھی۔ پاکستان کی نوجوان اور تکنیکی طور پر باشعور آبادی (تقریباً پچیس کروڑ) پہلے ہی کرپٹو کے میدان میں قدم رکھ چکی تھی، باوجود اس کے کہ ریاستی سطح پر ماضی میں کرپٹو کو شک کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ پی سی سی نے مختصر عرصے میں حیران کن عالمی شراکت داریاں قائم کیں اور پاکستان کو ممکنہ کرپٹو پاور ہاؤس کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا۔ تخمینہ ہے کہ ملک میں سالانہ کرپٹو لین دین کا حجم تیس ارب ڈالر تک جا پہنچا ہے اور پاکستانی صارفین دنیا کی تیسری سب سے تیزی سے بڑھتی ہوئی کرپٹو کمیونٹی کا حصہ بن چکے ہیں۔ پی سی سی کے قیام کے فوراً بعد ایک اور اہم پیش رفت ہوئی جب دنیا کے سب سے بڑے کرپٹو کرنسی ایکس چینج ”بیننس“ کے بانی، چانگ پینگ ژاؤ  نے پاکستان کا دورہ کیا اور اپریل 2025ء میں پی سی سی کے اسٹریٹجک ایڈوائزر کے طور پر کام شروع کیا۔ اس تقرری نے عالمی کرپٹو کمیونٹی کو حیران کر دیا اور پاکستان کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو واضح طور پر نمایاں کیا۔26اپریل 2025ء کو پی سی سی اور ایک اہم امریکی فن ٹیک فرم ’ورلڈ لبرٹی فنانشل‘ کے درمیان معاہدہ طے پایا، جس کی ساٹھ فیصد ملکیت سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خاندان کے پاس ہے۔ معاہدے کا مقصد بلاک چین ٹیکنالوجی کا انضمام، مستحکم کوائنز کا فروغ اور ڈی سینٹرلائزڈ فنانس (DeFi) منصوبوں کو فروغ دینا ہے۔ اس معاہدے نے سفارتی اور جغرافیائی سیاست میں بھی پاکستان کی اہمیت میں اضافہ کیا۔ بھارتی میڈیا کے مطابق اس شراکت داری نے امریکی انتظامیہ کے پاکستان کے بارے میں مؤقف میں نرمی پیدا کی، جو ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ بیانات سے عیاں ہے۔ اگرچہ ایسے دعوے قیاس آرائیوں پر مبنی ہو سکتے ہیں تاہم یہ بات طے ہے کہ اس شراکت داری نے پاکستان کو کرپٹو ایجنڈے میں ایک اسٹریٹجک پارٹنر کے طور پر عالمی سطح پر روشناس کرایا ہے۔پی سی سی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر کی حیثیت سے بلال بن ثاقب کی تقرری نے ملکی اور غیرملکی سطح پر اعتماد کو فروغ دیا ہے۔ پی سی سی نہ صرف ٹیکنالوجی کی قیادت کر رہا ہے بلکہ اس کا مقصد اسلام آباد کو جنوبی ایشیا کا کرپٹو مرکز بنانا ہے۔ یہ دعویٰ بھارتی میڈیا کے لئے باعث تشویش بن چکا ہے، خاص طور پر جب بھارت میں کرپٹو ٹریڈ پر تیس فیصد ٹیکس عائد ہے اور ڈیجیٹل کرنسی کو اب تک قانونی حیثیت حاصل نہیں۔ اس کے برعکس پاکستان میں ماحول زیادہ سازگار بنتا جا رہا ہے، جو کہ خطے بھر سے سرمایہ کاروں اور تاجروں کو اپنی طرف کھینچ سکتا ہے۔ پاکستان میں اس وقت 30 ملین سے زائد فعال کرپٹو صارفین موجود ہیں۔ اگر اس سرگرمی کو ایک مضبوط ریگولیٹری فریم ورک کے تحت باضابطہ کیا جائے، تو یہ نہ صرف ملکی ٹیکس آمدنی میں اضافہ کر سکتا ہے بلکہ غیرقانونی مالی بہاؤ کو بھی روکنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ بلاک چین ٹیکنالوجی کے ذریعے بیوروکریٹک رکاوٹوں کو ختم کیا جا سکتا ہے اور معیشت کو ڈیجیٹل شکل دی جا سکتی ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر عثمان مجیب شامی۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)