بھارت کو شرمناک شکست 

سات مئی کی صبح بھارت کے جنگی طیاروں نے پاکستان کی فضائی حدود میں گھس کر حملہ کیا جسے ”آپریشن سندور“ کا نام دیا گیا۔ اس حملے میں عام شہری زخمی ہوئے اور قیمتی جانی و مالی نقصانات ہوئے۔ بھارتی حملے میں کئی مساجد و مدارس کو نشانہ بنایا گیا۔ مذہبی عبادت گاہوں کی اس طرح توہین‘ جنگ کے علاؤہ بھی اپنی نوعیت کا جرم ہے۔ بھارت نے پاکستان پر حملے کی دلیل یہ دی ہے کہ بائیس اپریل کو مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں ہونے والے دہشت گرد حملے کا بدلہ لیا گیا ہے۔ اس حملے میں بھارتی سیاح ہلاک ہوئے تھے لیکن بھارت پاکستان کے ملوث ہونے کا کوئی بھی ثبوت پیش نہیں کر سکا اور یہی وجہ رہی کہ عالمی سطح پر پاکستان کے خلاف بھارت کے بیانیئے کو خاطرخواہ پذیرائی نہ مل سکی۔ مذکورہ حملے میں پاکستان کو ملوث کرنے کا ثبوت نہ ہونے کے باوجود بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا جو اس کی سوچی سمجھی اور پاکستان دشمنی حکمت عملی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ بھارت میں سیاست پاکستان دشمنی کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ عجیب بات یہ رہی کہ حملہ آور غائب ہو گئے۔ بھارت کو اسلحہ اور حملہ آوروں کے بارے میں کوئی بھی ثبوت نہ مل سکا۔ درحقیقت آپریشن سندور کا مقصد انسداد دہشت گردی نہیں بلکہ ایک ریاستی تماشا کرنا تھا۔ آپریشن سندور کوئی فوجی مہم نہیں بلکہ یہ پاکستان کے خلاف جنگی مہم کا اشتہار ہے جس میں بھارت اور دنیا کی رائے کو گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ بین الاقوامی قانونی اسکالر تھامس فرانک کی 
دلیل ہے کہ طاقت کی قانونی حیثیت نہ صرف رسمی حیثیت پر منحصر ہوتی ہے بلکہ اس کا انحصار طریقہ کار اور ثبوت پر بھی ہوتا ہے۔ بھارت کے پاس کسی بھی صورت پاکستان کے خلاف یکطرفہ طور پر فضائی حملے کرنے کا جواز نہیں تھا جبکہ بھارت نے حملہ کر کے ثابت کر دیا ہے کہ وہ عالمی قوانین کو خاطرخواہ اہمیت نہیں دیتا۔ بین الاقوامی قانون کمیشن کے ریاستی ذمہ داری کے مسودے کے آرٹیکل 20 کے تحت پاکستان کو بھارت کے خلاف جوابی کاروائی کی اجازت دی گئی ہے۔ بھارت کی مسلسل اشتعال انگیزی کا سامنا اور مقابلہ کرتے ہوئے پاکستان نے ہر محاذ پر بہادری اور وقار کا مظاہرہ کیا ہے جبکہ جذباتی ردعمل اندھا دھند جوابی کاروائی ہو سکتی تھی جو نہیں کی گئی۔ بھارت جنگی جنون میں مبتلا ہے اور اس کی سیاسی قیادت اپنی عوام کو دھوکہ دے رہی ہے۔ آپریشن سندور کو کوئی بھی ذی شعور اور امن سے محبت کرنے والا درست اقدام قرار نہیں دے سکتا بلکہ اسے ہمیشہ بین الاقوامی قوانین و قواعد کی خلاف ورزی کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ سات مئی کو جو کچھ ہوا اس نے پورے جنوبی ایشیا کے امن کو داؤ پر لگا دیا ہے۔ یہ اس بات کا امتحان ہے کہ کیا بین الاقوامی قانون اب بھی کچھ معنی رکھتا ہے یا بدلتے ہوئے اتحادوں اور سٹرٹیجک ہیجنگ کی دنیا میں‘ یہ سب نمائشی و آرائشی پیشرفت ہے۔ اگر بین الاقوامی برادری بھارت کا احتساب نہیں کرتی‘ اگر وہ اس کے اخلاقی پہلوؤں کو نظرانداز کرتے ہوئے اس عمل کی مذمت کرنے میں ناکام رہتی ہے تو اس سے دنیا میں امن قائم نہیں ہوگا بلکہ بھارت اور بھارت جیسی سوچ رکھنے والے دیگر ممالک دنیا کے امن کو تہس نہس کر کے رکھ دیں گے۔ بھارت نے اپنے آپریشن کو سندور کا نام دیا۔ سندور نامی سرخ رنگ کا سفوف شادی شدہ ہندو خواتین اپنی مانگ میں لگاتی ہیں اور اسے ہندو مذہب میں مقدس سمجھا جاتا ہے جو صدیوں سے تقدس کی علامت ہے لیکن بھارت نے اس مقدس علامت کی بھی توہین کی ہے۔ دنیا اب سندور کو محبت اور تعلق کی علامت کے طور پر نہیں بلکہ ضرر کی علامت کے طور پر یاد اور ذکر کرے گی۔ دنیا جانتی ہے کہ بھارت کے لبادے میں ایک خطرناک ذہنیت چھپی ہوئی ہے جو کسی بھی مذہب اور عقیدے کے مقدسات کی عزت کو اہم نہیں سمجھتا۔ آپریشن سندور درحقیقت آپریشن خون آشام ہے۔ اس کے ذریعے بے گناہ لوگوں کا خون بہا ہے۔ یہ خون اگر خشک ہو بھی جائے لیکن اس کا داغ عالمی ضمیر پر لگا رہے گا۔ تاریخ بھارت کے جنگی جنون کو کبھی فراموش نہیں کرے گی۔ بھارت کے حملے بین الاقوامی قانون اور 
اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی ہیں اور سفارتکاری اور شواہد کو نظر انداز کرکے علاقائی استحکام کو خطرے میں ڈال رہے ہیں‘جہاں نئی دہلی میں افراتفری پھیلی ہوئی ہے، وہیں پاکستان تحمل اور تیاری کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ منظم فوجی ردعمل اور امن کیلئے سفارتی کوششیں نئی دہلی کے جارحانہ لہجے میں پائی جانے والی پختگی کی عکاس ہیں‘ بین الاقوامی برادری کو اب ایک سنجیدہ سوال کا سامنا کرنا پڑے گا کہ وہ آخر کب تک بھارت کو پہلے سے کمزور خطے کو مزید غیر مستحکم کرنے کی اجازت دے گی؟ بھارت کے جنگی جنون کی صورت خطرہ صرف پاکستان کے لئے نہیں بلکہ علاقائی امن اور عالمی سلامتی کے لئے بھی ہے اور اس کا جواب نہ صرف فوجی تیاریوں کے ذریعے دیا جانا چاہئے بلکہ بھارت پر مسلسل سفارتی دباؤ کے ذریعے بھی اُسے جنگی جنون سے باز رہنے اور ہوش کے ناخن لینے پر مجبور کرنا چاہئے۔بھارت جنگ کو ہوا دے رہا ہے‘ پاکستان اشتعال انگیزی کا جواب نظم و ضبط کے ساتھ دے رہا ہے‘ دنیا کو تسلیم کرنا ہوگا کہ پاکستان نے نہ صرف اعلیٰ فوجی صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے بلکہ ایک زیادہ پختہ جغرافیائی سیاسی ویژن کا بھی مظاہرہ کیا ہے۔ جنگ بیان بازی سے نہیں جیتی جاتی بلکہ درستگی، تیاری اور اصول کی خاموش طاقت سے جیتی جاتی ہے اور اس مقابلے میں مودی کا جوش و خروش پہلے ہی شکست دیکھ چکا ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ایم زمان خان۔ ترجمہ ابوالحسن امام)