پانی بحران: قومی چیلنج

پاکستان ایسے دوراہے پر کھڑا ہے جہاں پانی کا مسئلہ مکمل بحران کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ یہ بحران صرف دیہی علاقوں یا پسماندہ اضلاع تک محدود نہیں رہا بلکہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد جیسے جدید شہر بھی اس سے محفوظ نہیں رہے۔ ملک کے مختلف حصوں میں پانی کی کمی، آلودگی اور ناقص حکمرانی نے اس مسئلے کی شدت کو بڑھا دیا ہے۔ وقت ہے کہ پانی کے بحران کو  سنگین مسئلہ تسلیم کیا جائے۔
پانی کی قلت نئی بات نہیں لیکن جس شدت سے یہ مسئلہ حالیہ برسوں میں بڑھا ہے، وہ ہماری پالیسیوں اور حکمت عملیوں کی ناکامی کو ظاہر کرتا ہے۔ پاکستان میں پانی کی فی کس دستیابی 1951ء میں 5260 مکعب میٹر تھی۔ آج یہ گھٹ کر ایک ہزار مکعب میٹر سے بھی کم ہو چکی ہے۔ عالمی معیار کے مطابق، یہ شدید قلت کی نشاندہی ہے۔ اس کے باوجود، ہمارے قومی بیانیے میں پانی کی پالیسی کو وہ اہمیت نہیں دی جا رہی جو درکار ہے۔ سال دوہزاراٹھارہ میں منظور کی گئی قومی آبی پالیسی ایک اہم قدم تھی۔ چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور وزیراعظم نے اس پر اتفاق کیا لیکن اس پالیسی کی عملی حیثیت کمزور ہے۔ اس میں اعداد و شمار پرانے ہیں اور عمل درآمد کے لئے کوئی واضح منصوبہ موجود نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پالیسی کا خاکہ مبہم اور غیر مؤثر ہے۔ پانی کے مسائل کی پیچیدگی اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ٹھوس، واضح اور مربوط اقدامات کئے جائیں۔ 
زیر زمین پانی کا بے تحاشا استعمال الگ مسئلہ ہے۔ ملک میں ہر سال تقریباً پچاس ملین ایکڑ فٹ پانی نکالا جاتا ہے لیکن قدرتی ریچارج کی شرح کم ہے۔ نتیجتاً کئی علاقوں میں زیرزمین پانی کی سطح تیزی سے نیچے جا رہی ہے۔ اسلام آباد میں بھی ٹیوب ویل گہرے ہوتے جا رہے ہیں تاکہ سکڑتے ہوئے ذخائر سے پانی نکالا جا سکے۔ یہ رجحان نہ صرف غیر پائیدار ہے بلکہ مستقبل میں شدید بحران کا پیش خیمہ بھی ہو سکتا ہے۔ شہری علاقوں میں پانی کی فراہمی کا مسئلہ صرف مقدار تک محدود نہیں۔ میٹھے پانی کی آلودگی بڑا خطرہ بن چکی ہے۔ پاکستان میں سالانہ تقریباً 962,000 ملین گیلن گندا پانی خارج ہوتا ہے جو براہ راست دریاؤں، نہروں اور جھیلوں میں شامل ہو جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے نہ صرف آبی حیات کو نقصان پہنچتا ہے بلکہ انسانوں کی صحت بھی خطرے میں پڑ گئی ہے۔ لاہور شہر سے گزرنے والے مشہور دریا ”راوی“ کی مثال ہمارے سامنے ہے، جو اب گندے نالے کی شکل اختیار کر چکا ہے۔
صفائی کے نظام کی کمزوری کا ثبوت یہ ہے کہ پاکستان کے شہری علاقوں سے پیدا ہونے والے گندے پانی کا صرف 1.2 فیصد حصہ تطہیر (ٹریٹ) کیا جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں چین 71 فیصد اور بھارت 22 فیصد گندا پانی صاف کرتا ہے۔ یہ اعداد و شمار ہمارے اقدامات کی ناکافی نوعیت کو ظاہر کرتے ہیں۔ تیزی سے شہری آبادی میں اضافے کے باوجود، پالیسی اور سرمایہ کاری کی رفتار اس کے مطابق نہیں بڑھی۔ زرعی شعبے میں پانی کا غیر مؤثر استعمال بھی مسئلہ ہے۔ ہم ایسی فصلیں اگاتے ہیں جنہیں بہت زیادہ پانی درکار ہوتا ہے جیسے کہ چاول، گنا اور کپاس۔ چاول کی فی مکعب میٹر پانی پیداوار صرف 0.45 کلوگرام ہے جبکہ ایشیائی اوسط ایک کلوگرام کے قریب ہے۔ ہم سستے داموں اپنے پانی کو برآمد کر رہے ہیں، جس سے نہ صرف معیشت کو نقصان ہوتا ہے بلکہ زیر زمین پانی کے ذخائر بھی ختم ہو رہے ہیں۔نئے ڈیموں کی تعمیر کو مسئلے کا حل سمجھا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ صرف ڈیم بنا لینے سے مسئلہ مکمل طور پر حل نہیں ہوگا اگرچہ دیامر بھاشا ڈیم مکمل ہو جائے تو یہ 6.4 ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کر سکے گا لیکن 2025ء تک طلب و رسد میں فرق 83ملین ایکڑ فٹ تک پہنچنے کا امکان ہے۔ اس فرق کو ختم کرنے کے لئے ہمیں 13 بڑے ڈیم درکار ہوں گے۔ یہ نہ صرف مہنگا منصوبہ ہے بلکہ وقت طلب بھی ہے۔ دوسری طرف، ہم ہر سال 46 ملین ایکڑ فٹ پانی ضائع کرتے ہیں جو رساؤ اور بخارات کی نذر ہو جاتا ہے۔ اگر ہم نہروں کی مرمت اور جدید آبپاشی نظام پر سرمایہ کاری کریں تو کم از کم ایک تہائی نقصان کم کیا جا سکتا ہے۔ یہ سرمایہ کاری نسبتاً سستی اور فوری نتائج دینے والی ہوگی۔ پانی کی قیمت کے تعین کا مسئلہ بھی اہم ہے۔ موجودہ پالیسی کے مطابق پانی کی قیمت صارفین کی قوت خرید کے مطابق ہے۔ جب تک پانی کی مناسب قیمت نہیں لگائی جاتی، تب تک صارفین، خاص طور پر کسان، اسے ضائع کرتے رہیں گے۔ پانی کے بہتر استعمال کو فروغ دینے کے لئے ہمیں ڈرپ آبپاشی اور دیگر ٹیکنالوجیز کو فروغ دینا ہوگا۔ اس کے ساتھ‘ پانی کے زیادہ استعمال پر جرمانہ عائد کرنا اور قیمتیں حقیقت پسندانہ بنانا بھی ضروری ہو چکا ہے۔ پاکستان میں پانی کا بحران صرف انتظامی نہیں بلکہ جغرافیائی بھی ہے۔ بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کی دہمکی اس بات کی نشاندہی ہے کہ پانی اب جیو پولیٹیکل ہتھیار بھی بن چکا ہے۔ اگر ہم اپنے اندرونی ذخائر کو بہتر طور پر محفوظ اور منظم نہ کر سکے، تو بیرونی خطرات ہمیں مزید نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر سوہا نثار۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)