خیبر پختونخوا کے ضلع اپر دیر میں ایک شخص نے غیرت کے نام پر ماں اور کمسن بیٹی سمیت تین تین افراد کو گولی مار کر قتل کردیا۔
سب ڈویژنل پولیس آفیسر (ایس ڈی پی او) زمان شاہ نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ اپر دیر کے علاقے دادبند میں ایک آدمی، ایک عورت اور اس کی تین سالہ بیٹی کو اس کے شوہر نے غیرت کے نام پر مبینہ طور پر قتل کر دیا۔
انہوں نے بتایا کہ ملزم نے ایک شخص کو بھی قتل کیا جو جڑی بوٹیوں کا حکیم بتایا جاتا تھا اور علاقے میں علاج کے لیے گھروں پر آتا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ( ملزم ) ذہنی مریض بتایا جاتا ہے اور اسلام آباد میں مزدور ی کرتا تھا، انہوں نے مزید کہا کہ وہ چند روز قبل گاؤں آیا تھا اور اپنی بیوی اور بیٹی کو اپنے چچا کے گھر چھوڑ گیا تھا۔
ایس ڈی پی او نے مزید بتایا کہ ابتدائی معلومات سے پتہ چلتا ہے کہ حکیم ملزم کے چچا کے گھر گیا تھا جہاں یہ واقعہ پیش آیا۔
ایس ڈی پی او زمان شاہ کا کہنا تھا کہ حالیہ برسوں میں ’غیرت‘ کے نام پر قتل کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے، لیکن زیادہ تر معاملات میں کسی نے پولیس میں شکایت درج نہیں کروائی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ریاست ہی فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کرواتی ہے لیکن ملزمان کو اکثر عدالت سے ریلیف مل جاتا ہے۔
پاکستان میں ’غیرت‘ کے نام پر قتل کا سلسلہ 2024 میں بھی جاری رہا تھا، اس کی وجہ خاندانی وقار اور عزت کے بارے میں گہرے سماجی نظریات ہیں جنہیں ’ غیرت ’ کے نام پر خواتین کو قتل کرنے کا سبب بنایا جاتا ہے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی ) کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 2024 میں، ’غیرت‘ کے نام پر قتل پاکستان بھر میں ایک سنگین مسئلہ رہا، جس میں سندھ اور پنجاب میں خاص طور پر زیادہ اعداد و شمار ریکارڈ کیے گئے، جنوری سے نومبر تک، ملک میں ’غیرت‘ کے نام پر جرائم کا شکار ہونے والے افراد کی کل تعداد 346 رہی۔
گزشتہ ماہ، خیبرپختونخواہ کے ضلع مانسہرہ میں ایک خاتون اور اس کی 16 ماہ کی بیٹی کو مبینہ طور پر اس کے رشتہ دار نے ’غیرت‘ کے نام پر گولی مار کر قتل کر دیا تھا۔
ایف آئی آر میں مقتولہ کی ساس نے بتایا کہ دہرے قتل کی وجہ یہ تھی کہ اس کے بیٹے نے مقتولہ سے شادی کی تھی۔