گیارہ مئی کو صدر ٹرمپ نے کشمیر پر سفارتکاری کا نیا دروازہ کھول دیا۔ سماجی پوسٹ میں انہوں نے جنگ بندی پر اتفاق کرنے پر بھارت اور پاکستان کی قیادت کی تعریف کی اور مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے اپنی مدد کی پیش کش کی۔ پاکستان نے اس بیان کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے سفارتی آغاز قرار دیا ہے۔ اس کے برعکس بھارت نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے اپنی سخت کشمیر پالیسی کی توہین قرار دیا۔ اس سے ایک روز قبل امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے اعلان کیا تھا کہ بھارت اور پاکستان نے جنگ بندی اور غیر جانبدار مقام پر بات چیت پر اتفاق کیا ہے۔ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے واضح کیا کہ یہ دو طرفہ ہوں گے لیکن بھارت نے فوری طور پر خود کو دور کر لیا اور تیسرے فریق کی ثالثی کے لئے کسی بھی کردار کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اس سے نئی دہلی میں بھارت اور پاکستان کے دوبارہ ابھرنے‘ کشمیر کو بین الاقوامی بنانے اور شاید سب سے زیادہ تکلیف دہ طور پر اس کے مبالغہ آمیز فوجی بیانیے کے منظر عام پر آنے کے بارے میں خدشات پیدا ہوئے۔ داخلی اور بین الاقوامی دباؤ کے تحت بھارت کی قیادت نے جھوٹ بولنا شروع کر رکھا ہے اور وزیر اعظم مودی نے پاکستان کے ساتھ دائمی دشمنی کے معمول کی وکالت کی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ان کا ناقص نظریہ ریاستی اور غیر ریاستی عناصر کے درمیان فرق (تمیز) مٹانے اور جوہری تصادم کو بطور ہتھیار استعمال کرنا ہے۔ مودی نے دہشت گردی اور آزاد کشمیر کو دوطرفہ ایجنڈے میں شامل کرنے پر زور دیا ہے‘ جو آرٹیکل 370کی منسوخی کے بعد بھارت کے سابقہ مؤقف سے بالکل مختلف تھا‘ جب اس نے دعویٰ کیا تھا کہ تنازعہ کشمیر اب موجود نہیں رہا اور آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو ضم کرنے کا مطالبہ بھی کیا تھا۔ بھارت کی جانب سے انکار کے باوجود بین الاقوامی نگرانی میں مذاکرات درحقیقت کشمیر کو ایک تنازعہ کے طور پر تسلیم کرتے ہیں اگرچہ بھارت کی مزاحمت کی وجہ سے صدر ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش کے بارے میں شکوک و شبہات موجود ہیں لیکن پاکستان کو سفارتکاری کا حقیقی موقع دینا چاہئے اور فراہم کردہ موقع سے بھی فائدہ اٹھانا چاہئے۔ موجودہ صورتحال میں پاکستان کو اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کرتے ہوئے تین اہم اقدامات کرنے ہوں گے۔ سب سے پہلے‘ ماضی کی پیشرفت پر نظر ثانی کریں۔ سابقہ تجاویز اور ٹریک ٹو کوششوں کے ساتھ اقوام متحدہ کی قراردادوں‘ اوون ڈکسن منصوبہ‘ بھٹو سورن سنگھ مذاکرات‘ مشرف کے چار نکاتی فارمولے اور 2015ء کے دس نکاتی ایجنڈے پر بھارت کے وزیر خارجہ نے اتفاق کیا۔ دیکھنا ہوگا کہ ان میں سے کون سا خیال اب بھی قابل عمل ہے۔ دوسرا‘ بھارت کو یک طرفہ رعایت دینے سے گریز کرنا چاہئے۔ جب تک بھارت مذاکرات کی میز پر نہیں آتا اس وقت تک پاکستان کو اپنا مؤقف برقرار رکھنا ہوگا۔ تیسرا‘ کشمیری عوام کو مذاکراتی عمل میں شامل کیا جانا چاہئے۔ ان کی رضامندی کے بغیر کسی حل کی توثیق نہیں کی جانی چاہئے۔ چار نکاتی فارمولے پر بات چیت کے دوران سید علی شاہ گیلانی جیسے رہنماؤں کو نظر انداز کر دیا گیا جو کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے پرزور حامی ہیں۔ یہ ایک غلطی تھی۔کشمیر کے عوام کو کسی بھی بات چیت یا تصفیے میں مرکزی کردار ادا کرنا چاہئے۔ پاکستان کو سندھ طاس معاہدے کی بحالی پر بھی زور دینا ہوگا‘ جسے بھارت نے کمزور کرنے کی کوشش کی ہے۔کشمیر کی تقدیر پاکستان کی فوجی‘ اقتصادی اور سفارتی طاقت سے وابستہ ہے۔ ہماری معیشت اگرچہ بہتر ہو رہی ہے لیکن اب بھی کمزور ہے۔ امید افزا ہونے کے باوجود‘ ہمارا اصل مقصد 2047ء تک دنیا کی دس بڑی معیشتوں میں سے ایک بننا ہونا چاہئے‘ جیسا کہ ورلڈ بینک نے پیش گوئی کی ہے۔ کشمیر ایک علاقائی تنازعہ سے بڑھ کر ہے۔ یہ بھارت کے ساتھ ہمارے تہذیبی مقابلے کا فرنٹ لائن ہے۔ ہمیں جلد بازی سے گریز کرنا چاہئے اور اس کے بجائے عالمی جغرافیائی سیاست میں طویل مدتی تبدیلیوں سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ آنے والے دنوں میں امریکہ اور چین کی بڑھتی ہوئی دشمنی جنوبی ایشیا کو اسٹریٹجک لحاظ سے اہم بنائے رکھے گی لیکن جب تک پاکستان فعال طور پر اس صورتحال سے فائدہ نہیں اٹھاتا‘ کشمیر سے متعلق سفارتکاری (ڈپلومیسی) خستہ حالی کا شکار رہنے کا اندیشہ ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر سردار مسعود خان۔ ترجمہ ابوالحسن امام)
اشتہار
مقبول خبریں
قیمتیں‘ مسابقت اور کاروبار
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
فضائی برتری کا دفاع
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
بھارت کو شرمناک شکست
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر: بھارت کا استصواب رائے سے انکار
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
پانی بحران: قومی چیلنج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
پاک فوج کی حمایت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
پاک چین دوستی: مظاہر و نتائج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
پانی پر جنگ
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
بھارت کی آبی جارحیت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر سفارتکاری
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام