بھارت: علاقائی بالادستی کا خواب

جنوبی ایشیا کے علاقائی ماحول پر نظر ڈالنے سے ایک بات وضاحت سے معلوم ہوتی ہے اور وہ یہ کہ بھارت چین جیسی عظیم طاقت بننے کی کوشش کر رہا ہے۔ پاکستان کے خلاف بھارت کی حالیہ فوجی جارحیت کو بڑی حد تک دو اسٹریٹجک مقاصد سے منسوب کیا جا سکتا ہے۔ پہلا مقصد تو یہ ہے کہ جنوبی ایشیا میں علاقائی بالادستی قائم کی جائے اور خاص طور پر پاکستان پر اپنی بالادستی قائم کرنے کے لئے فوجی ہتھکنڈوں اور سرحد پار کاروائیوں کا استعمال کیا جائے جبکہ دوسرا مقصد یہ ہے کہ پاکستان چین اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے کو روکا جائے جسے بھارت اپنے جغرافیائی اور معاشی عزائم کے لئے خطرہ سمجھتا ہے۔ خطے بالخصوص سی پیک سے منسلک علاقوں کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کرکے بھارت اس منصوبے کو کمزور کرنا چاہتا ہے اور علاقائی بنیادی ڈھانچے کی قیادت اور عالمی شراکت داری کے لحاظ سے خود کو چین کے قابل عمل متبادل کے طور پر پیش کرنا چاہتا ہے۔ یہ عزائم نہ صرف پاکستان بلکہ خطے کے ممالک کے لئے بھی خطرہ ہیں تاہم، بھارت چین سے نمایاں طور پر مختلف ہے کیونکہ وہ علاقائی تنازعات کا شکار ہے۔ ان کشیدگیوں میں پاکستان، بنگلہ دیش، چین اور نیپال بھی شامل ہیں۔ مسلسل سرحدی تنازعات اور پانی کی تقسیم کے اختلافات نے بھارت کے اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات کشیدہ کر رکھے ہیں۔ چین کی نسبت مستحکم علاقائی سفارتکاری کے برعکس بھارت کی جارحانہ پالیسیاں پورے جنوبی ایشیا میں بے چینی کا باعث بنی ہوئی ہیں۔ سی پیک پاکستان کی معیشت اور بنیادی ڈھانچے کو مضبوط کرنے کے علاؤہ بھارت کی اہمیت میں بھی اضافہ کرتا ہے، جو بھارت کے علاقائی بالادستی کے عزائم کے لئے چیلنج ہے۔ بھارت چین اور پاکستان کے بڑھتے ہوئے گٹھ جوڑ کو جنوبی ایشیا میں اس کے قائدانہ کردار اور بحیرہئ عرب تک اس کی سمندری رسائی کے لئے بھی خطرہ سمجھتا ہے۔ اس تاثر نے بھارت کو بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو سے خود کو دور کرنے اور بھارت مشرق وسطیٰ یورپ اقتصادی راہداری (آئی ایم ای سی) جیسے متبادل رابطے کے منصوبوں میں شمولیت پر مجبور کیا ہے، جو چین کے علاقائی اثر و رسوخ کو متوازن اور کم کرنے کی کوشش ہے۔چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے آغاز کے بعد سے جنوبی ایشیا کے جغرافیائی سیاسی منظرنامے میں نمایاں تبدیلی آئی ہے۔ چین کے صوبہ سنکیانگ کو پاکستان کی گوادر بندرگاہ سے ملانے والی یہ راہداری اسٹریٹجک طور پر گلگت بلتستان سے گزرتی ہے۔ بھارت چین کی زیر قیادت سی پیک کی مسلسل مخالفت کرتا رہا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے اعتراضات سفارتی اور معاشی مزاحمت سے لے کر فوجی کاروائیوں تک پھیل گئے ہیں، جس کی مثال 2019ء میں بالاکوٹ آپریشن اور پھر مئی 2025ء میں پاکستان پر فضائی حملے ہیں۔ یہ اقدامات پاکستان کے ساتھ بھارت کی دشمنی کو بھی واضح طور پر ظاہر کرتے ہیں اور چین کے ساتھ وسیع تر دشمنی کی عکاسی کرتے ہیں۔ انسداد دہشت گردی کی آڑ میں بھارت کی پاکستان کے خلاف فوجی کاروائیاں خاص طور پر سی پیک کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے حوالے سے گہری تشویش کو ظاہر کرتی ہیں۔ فروری 2019ء کے پلوامہ بالاکوٹ واقعہ نے ہندوستان کے فوجی نظریئے میں تبدیلی کی نشاندہی کی، جس میں متنازع انٹیلی جنس کی بنیاد پر طاقت کے استعمال پر آمادگی ظاہر کی گئی تھی۔ پلوامہ میں ہونے والے خودکش حملے کے بعد بھارت نے پاکستان پر فضائی حملے کئے اور ایک بار پھر اس حملے کو انسداد دہشت گردی قرار دینے کی کوشش کی۔ بھارت کے فضائی حملے ایسے وقت میں کئے گئے ہیں جب سی پیک کی بڑھتی ہوئی علاقائی مقبولیت، پہلے مرحلے کی کامیاب تکمیل اور دوسرے مرحلے کی جانب پیش رفت ہو رہی ہے۔ یہ کہنا کافی ہے کہ نئی دہلی سی پیک کو ایک خطرے کے طور پر دیکھتا ہے۔ علاقائی بالادستی قائم کرنے کی بھارت کی کوششیں، چاہے وہ چین کے مؤقف کی تقلید پر مبنی ہوں یا پاکستان پر فضائی حملوں کے ذریعے‘ اب تک ناکام رہی ہیں۔ سی پیک کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں بھی ناکام ہو چکی ہیں جس کی وجہ سے بدلتے ہوئے جغرافیائی سیاسی حقائق سے بھارت کی بے چینی بے نقاب ہو گئی ہے۔ جیسے جیسے یہ سی پیک راہداری آگے بڑھتی ہے، اس سے پاک چین شراکت داری مزید مضبوط ہو گی اور ابھرتے ہوئے علاقائی نظام میں بھارت تیزی سے سائیڈ لائن (الگ) ہوتا چلا جائے گا۔ بھارت کو اپنے سرحدی تنازعات حل کرنے اور  ہمسایہ ممالک کے ساتھ کشیدہ تعلقات معمول پر لانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ثروت رؤف۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)

 نفرت پر مبنی بھارت کی خارجہ پالیسی کی وجہ سے اُس کی علاقائی بالادستی کا تصور خاک میں مل چکا ہے اور  اگر بھارت کے فیصلہ سازوں نے اب بھی ہوش کے ناخن نہ لئے اور غلط اندازوں کی پیروی کی تو اِس  سے علاقائی اور عالمی سطح پر بھارت کی ساکھ (شبیہ) کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔