بھارت اختتام پذیر

سال 2003ء میں معروف بھارتی مصنف خوشونت سنگھ نے ”دی اینڈ آف انڈیا“ کے نام سے ایک چھوٹی سی کتاب شائع کی تھی جس میں انہوں نے مایوس کن انتباہ جاری کرتے ہوئے لکھا کہ اگر ہندوستان نے اقلیتوں کے خلاف فرقہ وارانہ نفرت اور ریاستی سرپرستی میں تشدد کے راستے پر چلنا جاری رکھا تو اُسے کسی بیرونی حملہ آور کی ضرورت نہیں ہو گی بلکہ وہ اپنے آپ ہی میں ختم ہو جائے گا۔ خوشونت سنگھ، جو کہ ایک کٹر سیکولرسٹ اور تقسیم ہند کے قتل عام سے بچ گئے تھے، کو ڈر تھا کہ تکثیری ہندوستان کا خواب پہلے ہی دم توڑ رہا ہے۔ دو دہائیوں کے بعد‘ ان کی پیشگوئی درست ہوتی محسوس ہو رہی ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان حالیہ تنازعہ نے ایک پرانی جغرافیائی سیاسی فالٹ لائن کو دوبارہ زندہ کر دیا ہے بلکہ اس سے بھی پیچیدگیاں پیدا کی ہیں کہ ہندوستان کی جمہوری روح کا زوال ہوا ہے اور یہ گاندھی‘ نہرو‘ آزاد اور ’امبیڈکر‘ کے تصور کردہ سیکولر وعدوں کو دفن کرنے کا منہ بولتا ثبوت دیا۔ اس بحران سے پہلے، بحران کے دوران اور بحران کے بعد میں جو کچھ ہوا وہ محض سفارتی غلطی نہیں تھی۔ یہ جمہوریہ کے بانی نظریات یعنی تکثیریت، عدم تشدد، وفاقیت اور آئینی اخلاقیات کے ساتھ مکمل غداری بھی ہے۔ آج، ہندوستانی ریاست سیاست کی خاموش دانش مندی سے نہیں بلکہ پولرائزیشن کی گرجتی مشینری سے متاثر نظر آتی ہے۔ پاپولزم اب تخت پر بیٹھا ہے جہاں کبھی اصول ہوا کرتے تھے۔ پریس کی آزادی کی جگہ پروپیگنڈے نے لے لی ہے۔ پرجوش حب الوطنی نے اخلاقی حوصلے پست کر دیئے ہیں۔ اِس قومی خطرے کے لمحات میں، حکمت عملی سے کام لیتے ہوئے تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہئے تھا لیکن بھارت کی قیادت نے بھارت کو تماشا بنانے کا انتخاب کیا۔ کوئی ہنگامی پارلیمانی بحث نہیں ہوئی، کوئی قومی مصالحتی خطاب نہیں ہوا، گاندھی کی روح سے کوئی اپیل نہیں ہوئی۔ جو کچھ سامنے آیا وہ انتقام کا جذبہ تھا: پالیسی کے طور پر ہیش ٹیگ، سفارت کاری کے طور پر اسٹوڈیو مباحثے اور ریاست کے طور پر سینہ ٹھونک کر بات کرنا۔ خوف زدہ آبادی کو پرسکون کرنے کے بجائے سیاسی رہنماؤں نے اپنی بنیاد کی بدترین جبلتوں کے ساتھ کھیل کھیلا، سفارت کاری اور جمہوریت کے درمیان کی لکیر فوجی جوش و خروش کی دھند میں غائب ہو رہی تھی لیکن شاید سب سے زیادہ مایوس کن زوال اقتدار کے ایوانوں میں نہیں بلکہ نام نہاد ”دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت“ کے نیوز رومز میں آیا۔ ہندوستان میں صورتحال کے سنجیدہ تجزیئے اور تفتیشی جرأت کی جگہ ہمیں جنگی جنون اور افسانے سننے کو ملے۔ بڑے بڑے ٹیلی ویژن چینلز حوصلہ افزا ء اسکواڈ میں تبدیل ہو گئے، جن میں جعلی ویڈیوز اور فوجی فتح کے غیر مصدقہ دعوے شامل تھے۔ تنقیدی آوازوں کو ’ملک مخالف‘ قرار دے دیا گیا، اختلاف رائے سکرین سے غائب ہو گیا اور سچائی قوم پرستی کا شکار بن گئی۔ بھارت میں جو کچھ ہوا اور جو کچھ ہو رہا ہے یہ صحافت نہیں۔تھیٹر ہے جسے دیوالیہ پن قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ ناکامی وجودی ہے کیونکہ جب صحافت کو پروپیگنڈے سے الگ نہیں کیا جا سکتا تو جمہوریت خود دم توڑنے لگتی ہے۔ ہندوستان، جو کبھی شور مچانے والا، تکثیری بحث کا مرکز ہوا کرتا تھا، اب خوف کی ثقافت بن چکا ہے، جہاں اقلیتیں سرگوشی کرتی ہیں، اختلاف رائے رکھنے والے غائب ہو جاتے ہیں اور اکثریت پسندی اتحاد کا روپ دھار لیتی ہے۔ ہندوستانی جمہوریہ ہمیشہ جرات مندانہ رہی جس میں ہر مذہب، زبان اور ذات کے لوگوں کا گھر ہوا کرتا تھا لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ پورے ملک میں نفرت کی لہر دوڑ گئی ہے۔ عبادت گاہیں محفوظ نہیں۔ ’جبری تبدیلی مذہب‘ کے ملزم عیسائیوں کو سڑکوں پر گھسیٹا جاتا ہے۔ سکھوں کو ان کے سیاسی عقائد کی وجہ سے بدنام کیا جا رہا ہے۔ ہمیشہ کی طرح دلتوں کو ادارہ جاتی بربریت کا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے۔ ’امبیڈکر‘ نے جس ہندوستان کا تصور دیا تھا وہ اب ایک ایسی ریاست ہے جو اپنی شناخت کھو رہی ہے۔ اِس صورتحال میں قانونی منظر نامہ بھی خوفناک شکل اختیار کر چکا ہے۔ شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کی دفعہ 370 کی منسوخی اور انسداد دہشت گردی قانون کے بے تحاشہ غلط استعمال جیسے قوانین الگ تھلگ واقعات کی نشاندہی نہیں کرتے بلکہ مذہبی خطوط پر ہندوستانی شہریت کو دوبارہ ترتیب دینے کی مسلسل مہم کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ یہ بھارتی قوم یا معاشرے کے لئے تعمیری نہیں بلکہ تخریبی تحریک ہے۔ بھارت سے آمدہ اطلاعات کے مطابق گاندھی کے خواب کی موت ہو چکی ہے۔ ہندوستان اب ایک خطرناک تبدیلی کے دہانے پر کھڑا ہے اور بھارت کی قیادت کے پاس اب بھی ایک انتخاب کا موقع ہے کہ وہ تصادم کی بجائے نجات کا راستہ اختیار کرے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر مسعود لوہار۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)