امکانات‘ خدشات‘ توقعات

مرکز اور صوبوں کی سطح پر نئے مالی سال کے بجٹ سے متعلق خبریں تسلسل کیساتھ آرہی ہیں ان خبروں کی روشنی میں بجٹ کے حوالے سے توقعات بھی ہیں اور خدشات بھی‘ بہت ساری توقعات اس لئے کمزور پڑ جاتی ہیں کہ بجٹ کے حوالے سے منظوری انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کے پاس جاتی ہے جہاں بہت ساری شرائط آڑے آجانے کا امکان ہوتا ہے صوبے کی حد تک خیبرپختونخوا کا بجٹ ٹیکس فری ہونے کا عندیہ دے دیا گیا ہے‘ وزیراعلیٰ سردار علی امین گنڈا پور کاکہنا ہے کہ ٹیکس مزید کم کئے جائینگے مرکز کے بجٹ سے متعلق بھی مسلسل خبریں اور اعدادوشمار سامنے آرہے ہیں ایک ایسے وقت میں جب قومی بجٹ کی تیاری کا کام جاری ہے بینک دولت پاکستان نے حکومتی قرضوں سے متعلق اعدادوشمار جاری کئے ہیں جو یقینا قابل تشویش اور اصلاح احوال کیلئے ایک موثر حکمت عملی کے متقاضی ہیں بینک کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال اپریل کے مہینے کے اختتام پرحکومتی قرضوں کا حجم21ہزار602 ارب روپے تھا جبکہ اب مارچ کے مہینے کے اختتام پر یہ والیوم22ہزار170ارب روپے ہوچکا تھا ایسی صورت میں جبکہ معیشت پر قرضوں کابڑا بوجھ ہو تو اس سے تمام سیکٹر متاثر ہوتے ہیں جبکہ تعمیر و ترقی کے منصوبوں پر بھی کام مطلوبہ رفتار سے جاری نہیں رہ پاتا قرضہ دینے والوں کی شرائط پر عملدرآمد مجبوری ہوتا ہے جبکہ حکومت کسی سیکٹر میں عوام کو کسی قسم کی مراعات و سہولیات دینا بھی چاہے تو ایسا ممکن اس لئے بھی نہیں ہوتا کہ قرض دینے والے اس کو مقررہ اہداف تک پہنچنے میں رکاوٹ سمجھتے ہیں‘ اس صورتحال میں سب سے زیادہ متاثر ملک کا وہ غریب شہری ہے جسے تمام تر حکومتی قرضوں کے لئے عائد ہونے والی شرائط کا لوڈ اٹھانا پڑتا ہے‘ اس شہری کی کمر مہنگائی نے توڑ کر رکھ دی ہے اس کے لئے حکومت مطلوبہ ریلیف یکدم فراہم کرنا بھی چاہے تو مشکلات ضرور آڑے آتی ہیں‘ اس سارے منظرنامے میں ضروری ہے کہ مرکز اور صوبے ایک موثر حکمت عملی کے تحت چیک اینڈ بیلنس کے موثر نظام کے ساتھ عوام کو اوپن مارکیٹ میں ریلیف فراہم کرنے کا انتظام کریں‘ساتھ ہی ضروری یہ بھی ہے کہ خدمات کے اداروں میں سروسز کا معیار یقینی بنایا جائے‘ تاکہ عوام کو سہولت مل سکے اس سب کے لئے ضرورت کنکریٹ حکمت عملی کی ہے۔‘