حکومت اور انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کے ذمہ دار حکام کے درمیان مذاکرات میں اتار چڑھاؤ عوام کیلئے ریلیف کے سوال پر زیادہ ہے‘ قابل اطمینان ہے کہ حکومت کی جانب سے عوام کو ریلیف دینے کیلئے کوششیں جاری ہیں تادم تحریر مہیا ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق حکومت نے عوام کو ریلیف دینے کیلئے متبادل ذرائع سے آمدن کا پلان بھی آئی ایم ایف کو پیش کر دیا ہے‘ یہ متبادل منصوبہ سپر ٹیکس اور تنخواہ دار طبقے پر بوجھ کم کرنے کیلئے پیش کیا گیا ہے‘ اس حوالے سے جاری مذاکرات کے دوران بتایا جارہا ہے کہ آئی ایم ایف کے حکام کا رویہ سخت ہے‘ عالمی مالیاتی ادارے کی جانب سے صوبائی اخراجات میں کمی اور زرعی انکم ٹیکس وصولی کیلئے سخت اقدامات کا مطالبہ کیا جارہاہے‘ وطن عزیز کو اقتصادی شعبے میں سخت دشواریوں کا سامنا ایک عرصے سے چلا آرہاہے ان دشواریوں کا گراف قرضوں کے حجم میں اضافے کے ساتھ ساتھ بڑھتا چلا جارہاہے‘ ملک کھربوں روپے کا مقروض ہے ہر سال بھاری رقم صرف سود کی ادائیگی کی مد میں ادا کی جاتی ہے‘ اس کے ساتھ قرضے دینے والوں کی شرائط پوری کرنا مجبوری بن چکا ہے اس مجبوری میں نئے ٹیکس عائد کرنے‘ موجود ٹیکسوں کی شرح میں اضافے اور پیداواری لاگت بڑھانے کا سلسلہ عرصے سے جاری ہے‘ اس سب کا لوڈ عام شہری پر کمر توڑ مہنگائی کی صورت ہی پڑ رہاہے‘ اس وقت بھی حکومت کے آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات میں بات اسی عام آدمی کیلئے ریلیف کی چل رہی ہے‘کیا ہی بہتر ہو کہ حکومتی ترجیحات کی فہرست میں برسرزمین حقائق کی روشنی میں اسی عام شہری کو ریلیف دینے کیلئے اقدامات کو ثمر آور عملی شکل دی جائے‘اس مقصد کیلئے ضروری ہے کہ مرکز اور صوبے موثر اور جامع حکمت عملی ترتیب دیں‘ اس میں سب سے پہلے مارکیٹ کنٹرول کیلئے اقدامات یقینی بنائے جائیں تاکہ عوام کو مصنوعی مہنگائی‘ ذخیرہ اندوزی اور انسانی صحت و زندگی کیلئے مضر ملاوٹ سے چھٹکارہ یقینی بنایا جائے مدنظر رکھنا ہوگا کہ یہ کام دو چار معمول کے چھاپوں اور کاغذی کاروائی کے طور پر جاری نرخنامے سے ممکن نہیں اس کے ساتھ عوام کیلئے بنیادی سہولیات کی فراہمی بھی یقینی بنانا ہوگی‘ اس کیلئے خدمات کے اداروں کو منظم منصوبے کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا‘سروسزمیں اہم علاج کی سہولیات ہیں کہ جن کیلئے بڑے پیمانے پر اصلاحات کی ضرورت ہے۔
