بگاڑ کا سدھار

وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ وطن عزیز میں 70 برس کے بگاڑ کو سدھارنے کے لئے سخت اقدامات ضروری ہیں‘ اسلام آباد میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی ایک بریفنگ میں وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ ٹیکس چوری میں ملوث افراد اور کاروبار کسی رعایت کے مستحق نہیں اور یہ کہ اب اس پر سخت کاروائی کی جائے گی۔ وزیراعظم کا کہنا ہے کہ ایف بی آر کے نظام کو خودکار بنانے کے لئے اقدامات کا سلسلہ تیزی سے جاری ہے‘ اس موقع پر شہباز شریف کو بتایا گیا کہ ملک میں چینی کی صنعت کے بعد تمباکو‘ مشروبات‘ سٹیل اور سیمنٹ کے شعبوں کی نگرانی کے لئے بھی اہلکار تعینات کر دیئے گئے ہیں۔ وطن عزیز کا اقتصادی منظر نامہ پریشان کن صورت اختیار کئے ہوئے ہے‘ ملک کھربوں روپے کا مقروض ہے‘ بجٹ کی تیاری کا کام ہو یا پھر عوام کو کسی سیکٹر میں کوئی ریلیف دینا ہو قرض دینے والوں کو ہر صورت اعتماد میں لینا پڑتا ہے۔ نئے ٹیکس لگانے اور ٹیکسوں کی شرح میں رد و بدل کے لئے بھی قرضے دینے والوں سے بات کرنا مجبوری ہے۔ قرضہ دینے والوں کی جانب سے تمام شرائط کا لوڈ عوام کو برداشت کرنا پڑتا ہے‘ کسی بھی سیکٹر میں پیداوار پر کوئی ٹیکس عائد ہو یا مجموعی طور پر پیداواری لاگت میں کوئی اضافہ ہو تو اس کا بوجھ فی الفور عام صارف کو منتقل کر دیا جاتا ہے بعد از خرابی بسیار سہی اب ٹیکس وصولی پر توجہ دی جا رہی ہے اور ٹیکس چوری میں ملوث افراد سے بھی پوچھ گچھ ہو رہی ہے۔ ایف بی آر کا کہنا ہے کہ اب سیلز ٹیکس کی چوری روکنے کے لئے نیشنل ٹارگٹنگ سسٹم متعارف کروایا جا رہا ہے‘ اس نظام کے حوالے سے مہیا خدوخال کے مطابق ملک میں مصنوعات کی نقل و حمل میں شامل گاڑیوں کو ای ٹیگ اور ڈیجیٹل ڈیوائس کے ذریعے براہ راست ٹریک کیا جائے گا‘ اس وقت جبکہ ٹیکسوں کی مد میں بھاری رقوم ریکور ہونا باقی ہیں حکومت خود بھاری قرضوں کے باوجود 30 جون تک کمرشل بینکوں سے ایک ارب ڈالر قرضہ لینے کا فیصلہ کر رہی ہے‘ قرض کا مقصد زرمبادلہ کے ذخائر کا حجم 13.9 ارب ڈالر تک لے جانا ہے جو کہ آئی ایم ایف کی شرط ہے۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ 70 سال کے بگاڑ کو سدھارنے کے لئے سخت اقدامات ضروری ہیں تاہم ضروری یہ بھی ہے کہ اب تمام تر اقدامات کا لوڈ عوام پر ہی نہ آئے‘ اس کے ساتھ ناگزیر یہ بھی ہے کہ ارضی حقائق کی روشنی میں جو کہ بہت تلخ بھی ہیں عوام کے لئے ریلیف یقینی بنایا جائے‘ ضروری یہ بھی ہے کہ وزیراعظم اقتصادی بحالی کے لئے جس طرح کام کر رہے ہیں اسے جاری رکھا جائے اور اس حوالے سے حکمت عملی میں وسیع مشاورت یقینی بنائی جائے۔