صرف اعدادوشمار کافی نہیں 

مالی سال2025-26ء کیلئے قومی بجٹ سے متعلق خبروں میں بتایا جارہاہے کہ اس میں آمدن کا تخمینہ200کھرب ہوگا اخراجات کا حجم 260کھرب سے زیادہ ہے‘ دریں اثناء خیبرپختونخوا کے میزانیہ سے متعلق کہا جارہاہے کہ اب کی مرتبہ بجٹ180 ارب روپے سرپلس ہوگا‘ وزیر اعلیٰ کے مشیر برائے خزانہ مزمل اسلم کاکہناہے کہ سرپلس کا ہدف100ارب روپے رکھا گیا تھا نئے مالی سال کی آمد سے پہلے اعدادوشمار کے ساتھ متوقع اعلانات پر مشتمل رپورٹس ہر سال تواتر کیساتھ آتی ہیں اس وقت بھی دیگر اعدادوشمار کیساتھ ساتھ بجلی کی قیمت میں 2.25 روپے فی یونٹ کمی کا عندیہ بھی دیا جارہا ہے‘ اس حوالے سے خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ میں بتایا جارہاہے کہ نیپرا میں سماعت مکمل ہو چکی ہے بجلی کی قیمتوں میں رعایت کیساتھ صارفین کو400 ارب روپے کا ریلیف ملے گا‘ بجٹ سے پہلے اور بعدمیں اعدادوشمار جتنے بھی حوصلہ افزاء ہوں‘ عام شہری کو ریلیف کا احساس صرف اس وقت ہوتا ہے جب اسے مارکیٹ میں ضرورت کی اشیاء مناسب نرخوں پر مل پائیں‘عالمی جریدہ مہنگائی کو صفر قرار دے اور عملی طورپر عام شہری کی کمر ہی گرانی کے باعث ٹوٹ رہی ہوتو اس کیلئے تمام رپورٹس ا ور اقتصادی شعبے کے بہتر ہوتے اشاریے بے معنی ہو کر رہ جاتے ہیں‘ وطن عزیز کو اقتصادی سیکٹر میں بے شمار دشواریوں کاسامناہے ان کے باؤجود بعض اوقات فنانشل انڈیکٹرز میں بہتری پر مشتمل انتہائی حوصلہ افزا رپورٹس سامنے آتی ہیں تاہم اوپن مارکیٹ میں اس سب کے باوجود عوام کو ریلیف کا کوئی احساس نہیں ہو پاتا‘ اب کی بار تو بہت ساری خوش کن خبروں کیساتھ یہ بھی بتایا جارہاہے کہ بجٹ کے بعد مہنگائی کی شرح5.1 سے بڑھ کر7.7 فیصد تک پہنچ جانے کاامکان موجود ہے حکومت مرکز میں ہو یاکسی بھی صوبے میں عوام کوریلیف دینا اس کی ترجیحات میں ہمیشہ سرفہرست ہی رہتا ہے‘ اس کے باوجود عام آدمی کی مشکلات میں اضافہ ہی ہوتا رہتا ہے اس کی وجہ مارکیٹ کنٹرول کیلئے انتظامات کا ناکافی ہونا ہے دوچار چھاپے اور جرمانے یا پھر نرخنامے کا معمول کے مطابق اجراء اور اس سب پر اکتفا کرلینا مسئلے کا حل نہیں‘ اصلاح احوال کیلئے مرکز اور صوبوں کو مل کر اس ضمن میں ٹھوس حکمت عملی ترتیب دینا ہوگی۔