امیدکی کرن

 حج‘ اسلام کے بنیادی ارکان میں سب سے بڑا اور اہم رکن ہے‘ مگر بہت سی شرائط کےساتھ۔ پہلی شرط تو صاحب استطاعت ہونا ہے‘ جو مسلمان حج کے سفر ‘حجاز میں رہنے کے مصارف اور اپنی غیر موجودگی میں ‘اہل خانہ کے اخراجات ادا کرنے کی رقم رکھتا ہو‘اس پر پوری زندگی میں ایک بار حج فرض ہے‘اسی لئے حکم ہے کہ جب کوئی مسلمان استطاعت کی شرط پوری کرلے‘اس کو حج ادا کرنے میں دیر نہیں کرنی چاہئے مگر موجودہ زمانے میں استطاعت کے معنی بہت وسیع ہو گئے ہیں۔ اب صرف سفر کے مصارف ہونا ہی کافی نہیں‘اس کےلئے کارآمد پاسپورٹ کا ہونا اوراپنی حکومت کی طرف سے سفر کی اجازت ملنا بھی شامل ہے‘اس سے زیادہ اہم‘ مقام حج یعنی مکہ مکرمہ اور منیٰ و عرفات کا انتظام کرنےوالی سعودی عرب کی حکومت کی طرف سے ویزے اور اجازت کا اجراءبھی ضروری ہے۔ یعنی اب عازم حج کے پاس سفری مصارف بھی ہوں اور پاکستان اور سعودی عرب کی حکومتوں کی طرف سے باقاعدہ اجازت کی دستاویزات اور شرائط کی تکمیل کا عزم بھی ہو تو پھر صاحب استطاعت ہوگا اور اس پر حج فرض ہوگا اگر کوئی سرکاری رکاوٹ حائل ہو تو عازم معذور سمجھا جائے گا اور فرض ساقط ہو جائے گا۔ اس تناظر میں اس سال آنےوالے حج کی فرضیت پر کئی سوالات آگئے ہیں‘ کورونا وبا کے بعد سعودی عرب نے عمرہ اور زیارات کےلئے آنے والوں کی حفاظت کے نقطہ نظر سے حرمین شریفین کو بند کر دیا تھا۔ عمرہ ویزوں کا اجراءبھی روک دیا تھا اور حج کےلئے تمام ممالک کو تیاریوں سے منع کر دیا تھا۔

 اب سخت ایس او پیز کےساتھ مسجد نبوی شریف کو نمازیوں کےلئے دوبارہ کھول دیا گیا ہے‘ مگر حج کے بارے میں سعودی عرب نے حتمی فیصلہ نہیں کیا۔ خیال ہے کہ 15 جون کو سعودی حکومت فیصلہ کر لے گی اس حوالے سے ابھی صرف اندازہ ہی کیا جاسکتا ہے کہ اگر حج کی اجازت دی گئی تو حاجیوں کی تعداد بہت محدود ہوگی۔ امکان ہے کہ اسلامی ممالک کا کوٹا 10 سے 20 فیصد کیا جا سکتا ہے اس کےساتھ عازمین کی عمر 50 سال سے کم اور ان کے صحت مند ہونے کی شرط بھی رکھی جاسکتی ہے‘سعودی عرب میں رہائش اور ٹرانسپورٹ کےلئے ایس او پیز پر بھی سخت پابندی ہوگی‘ جسکا اثر لامحالہ اخراجات پر پڑے گا اور ہوٹل یا بسوں میں گنجائش آدھی سے کم ہونے کا مطلب کرائے دوگنا ہونا ہے‘ساتھ ہی ائیر لائنز کے کرائے بھی مزید بڑھ چکے ہیں‘یہ صاف دکھائی دے رہا ہے کہ اگر محدود تعداد میں حاجیوں کو اجازت مل بھی گئی تو حج اخراجات دگنا ہو جائیں گے‘ پاکستان نے ابھی اس بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا بلکہ سعودی عرب کی طرف سے فیصلے کا انتظار کیا جارہا ہے اور تیاری کی جارہی ہے کہ جس قدر ممکن ہو‘ عازمین حج کو بھیجنے کی کوشش کی جائے گزشتہ روز اسی سلسلے میں وزارت مذہبی امور میں وفاقی وزیر ڈاکٹر پیر نور الحق قادری کی صدارت میں اجلاس ہوا۔

جس میں وڈیو لنک کے ذریعے ڈائریکٹر جنرل حج جدہ‘ڈائریکٹر حج مکہ مکرمہ اور ڈپٹی ڈائریکٹر حج مدینہ منورہ نے بھی شرکت کی‘ اجلاس میں سعودی عرب کے کسی ممکنہ فیصلے کی مختلف صورتوں میں عملدرآمد کے امکانات کا جائزہ لیا گیا‘وفاقی وزیر مذہبی امور کی کوشش اورخواہش ہے کہ سعودی عرب سے جس حد تک حاجیوں کے آنے کی اجازت ملے‘ ان کو بھیجنے کا ضرور انتظام کیا جائے تا کہ مشکل حالات اور محدود حج میں بھی پاکستان کی نمائندگی ضرور ہو اس کےلئے اڑھائی لاکھ درخواست دہندگان میں سے عازمین کی خواہش اور سعودی شرائط پر پورا اترنے والوں کی شفاف طریقے سے سکروٹنی اور سکریننگ کی جائے ‘ لیکن جو حالات نظر آرہے ہیں ان کے مطابق ان شرائط کے تحت لازمی اخراجات میں اضافہ ہو جائے گا اور اس کے بعد بڑی تعداد میں عازمین حج شرعی طور پر بھی استطاعت کے دائرے سے باہر نکل جائیں گے‘ بہت سے عمر اور صحت کے معیار پر پورا نہیں اتر سکیں گے ان سب امکانات کےلئے عازمین کو ذہنی طور پر تیار رہنا چاہئے اور ساتھ ہی اپنے اللہ سے یہ التجا بھی کرتے رہنا چاہئے کہ اپنے فضل سے حالات درست کردے تاکہ آئندہ سالوں میں کثیر تعداد میں حاجی حجاز مقدس کا سفر کر سکیں۔ یہ بڑے صدمے اور دکھ کا وقت ہے لیکن ہم اپنی استطاعت کے مطابق ہی مقلد ہیں اور ہمارا ایمان ہے کہ اللہ کریم ہماری محتاجی اور معذوری کو جانتے ہیں اور رحمت کے سائے دراز کریں گے۔