ڈاکٹروں کی طرح ’سوچنے‘ اور تشخیص کرنے والی مصنوعی ذہانت

 مصنوعی ذہانت (آرٹیفشل انٹیلی یا اے آئی) کا استعمال اب طب کی دنیا میں بھی عام ہوتا جارہا ہے لیکن بالخصوص مرض کی تشخیص میں اس کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہورہے تھے۔ اب ماہرین نے ایک بالکل نیا اے آئی سسٹم بنایا ہے جو عین ڈاکٹروں کی طرح سوچے گا اور اسی کی طرح فیصلہ کرے گا۔

یونیورسٹی کالج لندن اور بیبیلون ہیلتھ کمپنی نے مصنوعی ذہانت کو جو نیا سسٹم بنایا ہے وہ مرض کے باہمی تعلق کی بجائے مرض کی اصل وجوہ پر غور کرے گا۔ یوں یہ نظام مروجہ تمام نظاموں سے قدرے بہتر ہے اور بعض مقامات پر اس نے حقیقی ڈاکٹروں کو بھی مات دیدی ہے۔ اس بات کا انکشاف ایک چھوٹے سے عملی سروے میں ہوا ہے۔


 
مصنوعی ذہانت کے عام نظام مریض کی علامات پر فیصلہ کرتے ہیں لیکن نیا سافٹ ویئر ڈاکٹروں کی طرح سوچتا ہے اور انہی کی طرح سوالات پر سوالات کرکے مرض کی جڑ تک پہنچنے میں مدد دیتا ہے۔ اس دوران حاصل شدہ ڈیٹا کا تجزیہ ہوتا رہتا ہے۔
اس سافٹ وئیر کی تشکیل کرنے والے ماہر کیارن گلگن نے بتایا کہ مرض کی وجہ معلوم کرنے والا نظام مریض کی تمام تر کیفیات پر غور کرتا ہے اور بہتر فیصلے تک پہنچتا ہے۔

اصل کیس، مصنوعی ڈاکٹر

مصنوعی ذہانت کے اس نظام کی پشت پر 1671 مریضوں کی اصل روداد شامل ہے جسے کئی برس میں 20 سے زائد ڈاکٹروں نے بڑی محنت سے لکھا ہے۔ انہوں نے یہ سب معلومات ایک منظم انداز میں تیار کی ہے جسے مصنوعی ذہانت کے الگورتھم میں شامل کیا گیا ہے۔

ایک اچھا برطانوی ڈاکٹر اگر 159 مریضوں کو دیکھتا ہے تو درست علاج اور تشخیص کی شرح 71 فیصد سے کچھ زائد ہوسکتی ہے۔ تاہم ایک چھوٹے سے مطالعے میں اے آئی نظام نے 77 فیصد درستگی سے مرض کو سمجھ لیا اور درست علاج کی راہ سجھائی ہے۔