امور مملکت: ترجیحات اور دارومدار

امریکہ کے نظام مملکت کا دارومدار خزانے‘ عالمی بینک (ورلڈ بینک) اور عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) پر ہے۔ امریکہ کے سیاسی حکمرانوں کے اتفاق رائے سے مرتب ہونے والے اِس نظام کواقتصادی حکمت عملی یا مبینہ طور پر ترقی پذیر ممالک کے لئے ترقیاتی حکمت عملی (ڈویلپمنٹ پلان) کہا جاتا ہے۔ امریکہ سرمایہ دارانہ نظام کومضبوط بناتا ہے جس کے ذیلی و ضمنی اثرات بصورت نجکاری‘ قرض دینے کے پائیدار نظم و ضبط‘ قرضوں پر منحصر ادارہ جاتی اصلاحات اور غربت میں کمی جیسے اقدامات شامل ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ ترقی پذیر ممالک کی اُس فہرست میں پاکستان بھی شامل ہے جو امریکہ کے اِس عالمی مالیاتی نظم و ضبط سے وابستہ ہے اور اِس امداد و قرضوں کے ذریعے اپنی معیشت و طرزحکمرانی کی بہتری کا خواہاں ہے لیکن اب تک قرضوں کے ذریعے حاصل کردہ سرمائے اور سرمایہ دارانہ نظام کے اصولوں پر معیشت کو مرتب کرنے سے خاطرخواہ مقاصد حاصل نہیں ہوئے۔ امریکہ کی جانب سے پاکستان کو اقتصادی امداد‘ فوجی امداد اور یو ایس ایڈ (USAID) کے ذریعے دیگر امور کے لئے امداد دی جاتی ہے اور اِس ملنے والی امداد کا مجموعی حجم سال 1951ءسے2011ءکے درمیانی عرصے میں قریب 67 ارب ڈالر بنتا ہے۔1970ءسے 2019ءکے درمیان عالمی بینک نے پاکستان کو 15 ارب ڈالر سے زائد قرض دیا۔ اِسی طرح سال1950ءسے پاکستان عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کا رکن ہے اور اِس ادارے سے مجموعی طور پر 22 قرضوں کے مختلف پروگراموں کے تحت اصلاحات کے نام پر قرض لے چکے ہیں اور آئی ایم ایف سے قرض وصولی کا سلسلہ 1965ءسے جاری ہے۔ مجموعی طور پر ’آئی ایم ایف‘ پاکستان کو 21 ارب ڈالر کا قرض دے چکا ہے جس میں سے 14 ارب ڈالر پاکستان واپس کر چکا ہے۔ مجموعی طور پر امریکہ کی جانب سے پاکستان کو 100 ڈالر سے زیادہ رقم دی گئی ہے۔امریکہ کی جانب سے اپنے ہر دوست اور اتحادی ملک کو چار قسم کی اصلاحات کےلئے قرض دیا جاتا ہے۔ اِن میں سیاسی استحکام‘ قرض‘ کرنسی کے استحکام اور مہنگائی میں کمی شامل ہیں۔ اگر امریکہ کی جانب سے وضع کردہ اقتصادی اصلاحات کی حکمت عملی کا جائزہ لیا جائے تو اب تک کے تجربات سے وہ ناکام ثابت ہوئی ہے۔ امریکہ کی جانب سے دیا جانے والے قرض سے اقتصادی بہتری یا شرح نمو جیسے اہداف کسی بھی ملک میں حاصل نہیں ہوئے لیکن قرض لینے والوں پر ایک بوجھ لاد دیا گیا۔ شاید یہی مقصد ہو کہ امریکہ نے ایک ایسی حکمت عملی وضع کی ہے جو کامیاب نہ ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس قسم کی اقتصادی مدد دینے سے متعلق حکمت عملی امریکی خارجہ پالیسی کا حصہ ہے کہ ممالک کو قرضوں میں جھکڑ کر اُن سے اپنی مرضی کے مطابق فیصلے کروائے جائیں۔امریکہ کی طرح چین کی بھی ایک حکمت عملی ہے جس کے اہداف میں بھی سیاسی استحکام اور اقتصادی ترقی شامل ہے۔ جب ہم کسی ملک میں سیاسی عدم استحکام کی بات کرتے ہیں تو اِس سے تین خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ سب سے پہلے اُس ملک کی قومی پیداوار کم ہوتی ہے۔ دوسرا اُس ملک کی افرادی قوت سے استفادہ کم ہو جاتا ہے۔ بیروزگاری بڑھ جاتی ہے اور تیسرا اُس ملک کے اثاثہ جات (آمدن کے ممکنہ مواقعوں) میں اضافہ ہونا بند ہو جاتا ہے۔ چین کی جانب سے دی جانے والی امداد امریکہ سے مختلف ہے کہ چین کسی سیاسی استحکام کے نام پر عدم استحکام اور اقتصادی ترقی کے نام پر اقتصادی ابتری نہیں چاہتا۔ چین چاہتا ہے کہ ادارے مضبوط ہوں افراد نہیں۔ چین اہلیت (میرٹ) کی بنیاد پر قومی فیصلہ سازی کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ طرزحکمرانی پر اُٹھنے والے اخراجات کم دیکھنا چاہتا ہے اور امور مملکت اور قومی مالی وسائل میں ہونےوالی بدعنوانی کا مکمل انسداد چاہتا ہے۔ چین چاہتا ہے کہ جمہوریت کم ترین اور اہلیت (میرٹ) نسبتاً زیادہ ترجیح ہو تاکہ افراد نہیں بلکہ ادارے مضبوط ہوں۔ چین کے پاس مغربی ممالک کے معاشی نظام کے متبادل ایک ایسا اقتصادی نظام موجود ہے جس میں ترقی پذیر ممالک کو قرضوں میں جھکڑنے کی بجائے اُنہیں اپنے پاو¿ں پر کھڑا ہونے میں مدد دی جاتی ہے۔ مغربی ممالک ’فری اکنامی‘ اُور ’ڈیموکریسی‘ کی آڑ میں جو واردات کرتا ہے چین اُس کے متبادل نظام کو آزمانے کے لئے پیش کرتا ہے۔ اِسی طرح چین کسی ملک کے فیصلے‘ خودمختاری اور وہاں کے سیاسی اصولوں کو تبدیل کرنے کے لئے مداخلت بھی نہیں کرتا اور اُس کی مالی امداد اُن سبھی شعبوں سے مشروط نہیں ہوتی‘ جو داخلی و خارجی فیصلوں میں تبدیلیوں کا باعث بنیں۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)