طرز حکمرانی۔۔۔۔۔۔۔

وزیرِاعظم عمران خان امریکی صدارتی نظام کے حوالے سے اپنی پسند کا بارہا اظہار کرچکے ہیں۔ وہ اپنے کئی انٹرویوز میں بتا چکے ہیں کہ وہ ان اصولوں کو رکاوٹ کی طرح دیکھتے ہیں جن کی وجہ سے کابینہ کی کچھ نشستیں منتخب ممبران کو دینا ضروری ہیں حالانکہ وہ ان کو ماہرین کے حوالے کرنا چاہتے ہیں جیسا کہ امریکی صدر کرتا ہے۔ عام انتخابات میں کامیاب ہونے کے بعد سے ہی جو بائیڈن کو کورونا کی صورتحال کے ساتھ ساتھ معیشت‘ ایمیگریشن‘ دفاع‘ صحت اور اس جیسے دیگر شعبوں کے حوالے سے بریفنگ ملنا شروع ہوگئی تھی۔ یہ وہ شعبے تھے جن پر ان کی انتظامیہ نے فوری کام کرنا تھا۔وزیرِاعظم کا کہنا تھا کہ امریکی صدر کو تیاری کے لئے بہت وقت ملتا ہے (یعنی انتخابات اور حلف برداری کے دوران ڈھائی ماہ کا وقفہ ہوتا ہے) اور جس وقت وہ منصب سنبھالتے ہیں تب تک انہیں معاملات کا مکمل فہم حاصل ہوچکا ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں جب عمران خان انتخابات میں کامیاب ہوئے تو انہیں اہم معاملات کے حوالے سے اس وقت ہی بریف کیا گیا جب انہوں نے وزیرِاعظم کا حلف اٹھایا ۔ وزیرِاعظم اکثر یہ بات کہتے ہیں کہ برطانیہ میں اٹھارہ سال کرکٹ کھیلنے کے تجربے نے انہیں وہاں کی جمہوریت اور ذرائع ابلاغ کے کام کرنے کے طریقے کے حوالے سے بہت کچھ سکھایا ۔ اس طرزِ جمہوریت میں جب ایک جماعت حزبِ اختلاف سے حزبِ اقتدار میں آتی ہے تو اس جماعت کا سربراہ آسانی کے ساتھ وزارت ِعظمیٰ سنبھال لیتا ہے۔ وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ دراصل ایک ’شیڈو‘ وزیرِاعظم ہوتا ہے۔ وہ پچھلے وزیرِاعظم سے ایوان کے اندر حکومتی پالیسیوں پر روزانہ کی بنیاد پر سوالات کرتا ہے اور حکومتی پالیسیوں کے بارے میں علم رکھتا ہے۔ حکومتی کابینہ کے ہر رکن کے لئے حزبِ مخالف کا ایک ’شیڈو‘ رکن ہوتا ہے اور اس کے پاس اپنی وزارت کے حوالے سے اپنے مشیر‘ معاونین خاص اور پالیسی ساز افراد ہوتے ہیں۔ وہ موجودہ حکومت کو چیلنج کرتے ہوئے خود حکومت کرنے کی تیاری کرتے ہیں۔ وزیرِاعظم‘ اراکینِ کابینہ اور ’شیڈو‘ کابینہ کے اراکین بلاناغہ ایوان میں آتے ہیں۔ حزبِ اقتدار کے اراکین کو حقائق دکھا کر چیلنج کیا جاتا ہے اور وہ سخت سے سخت تنقید سننے کے بعد بھی صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہیں۔یعنی ایک طرح سے وہ حزب اختلاف میں رہتے ہوئے حکومت کے دور سے گزرتے رہتے ہیں۔ اور کسی بھی حکومت یا حزب اختلاف کاتو اصل مقصدہی یہی ہے کہ وہ دونوں ادوار میں عوام کے مسائل سے آگاہی حاصل کریں اور ان کے حل کیلئے پالیسی مرتب کریں، اس کے برعکس ہمارے ہاں کچھ اور حالات ہیں یہاں پر حکومت اور حزب اختلاف دونوں کی توجہ عوامی بہبود سے زیادہ ایک دوسرے پر مرکوز ہوتی ہے۔ حکومت کا کام حزب اختلاف کو ٹف ٹائم دینا ہے او ر حزب اختلاف حکومت کو ٹم ٹائم دینا اپنی ذمہ داری سمجھتی ہے۔ یہاں نکتہ یہ ہے کہ دور سے تو امریکی نظامِ حکومت ایک طاقتور نظام معلوم ہوتا ہے جسے وائٹ ہاو¿س میں بیٹھا کوئی بھی ایماندار شخص معاشرے کی بھلائی اور لوگوں کو ان کے حقوق دینے کے لئے استعمال کرسکتا ہے لیکن حقیقت اس سے مختلف ہے۔ اگرچہ امریکی صدر کے پاس بے تحاشہ اختیارات موجود ہوتے ہیں لیکن پھر بھی موجودہ صدر کو ہر وقت کانگریس کا سامنا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ آمرانہ ذہنیت رکھنے والے ٹرمپ پر بھی کانگریس کی نظریں موجود تھیں۔ اس کے علاوہ میڈیا بھی صدر یا اس کی انتظامیہ میں سے کسی کی کارکردگی میں آنے والے جھول کی تاک میں رہتا ہے۔ یہ بات یاد رکھیں کہ اگر ٹیکنوکریٹ اور ماہرین کو کابینہ میں شامل کرنے سے متعلق پاکستانی تجربے کی بات کی جائے تو یہ واضح ہے کہ ایسی مہارت کسی کام کی نہیں ہے جو غریب کے تن چھپانے کو کپڑا فراہم نہ کرسکے۔ بہتر کارکردگی کے لئے لگن‘ ایمانداری‘ محنت اور ایک اچھی ٹیم کی ضرورت ہوتی ہے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: عباس ناصر۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)