چین سے سیکھنے کی باتیں 

   ہمیں تو اس ملک میں لوکل گورنمنٹ کا مستقبل تاریک نظر آ رہاہے آ ج تک ہر حکومت بشمول موجودہ حکومت نے لوکل گورنمنٹ کو مضبوط بنانے کے بارے میں جو باتیں کیں وہ بس زبانی کلامی حد تک ہی محدود تھیں یہ بات ہم اس لئے لکھ رہے ہیں کہ ابھی اگلے ہی روز وزیر اعظم نے پچھلی حکومتوں کی طرح ہر رکن اسمبلی کو اپنے اپنے انتخابی حلقے میں ترقیاتی کاموں کے نام پر پچاس پچاس کروڑ روپے دینے کا وعدہ کیا ہے عوام کی یادداشت لاکھ کمزور سہی پر یہ کل کی ہی بات ہے جب انہوں نے اس خیال کا اظہار کیا تھا کہ وہ جب برسر اقتدار آئے تو اراکین پارلیمنٹ کو اس قسم کے پیسے دینے کی لعنت کو ختم کر دیں گے کیونکہ اس رقم کا بہترین مصرف یہ ہے کہ یہ منتخب شدہ لوکل گورنمنٹ کے اداروں کو دی جائے تاکہ وہ عوام الناس کی بنیادی ضروریات پورا کرنے کیلئے اسے خرچ کر سکیں‘ اس جملہ معترضہ کے بعد اب ہم آتے ہیں ان کارہائے نمایاں کی طرف کہ۔ جو چین نے انیس سو انچاس سے لے کر اب تک اپنے عام آ دمی کے فائدے کی خاطر کئے ہیں‘ اس ملک میں بھی ایک اکثریت کی یہ خواہش ہے کہ یہاں بھی ان کاموں کی تقلید کی جائے جو چین نے معاشی محاذ پر کئے ہیں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم اس قسم کے کاموں کو اپنے ہاں ممکن بنانے کے لئے اس نظام عدل کو وطن عزیز پر لاگو کر سکیں گے کہ جسے چین نے اپنے ہاں نافذ کر رکھا ہے چین کی حکومت نے اپنی پالیسیوں میں جو شفافیت رکھی ہے وہ حیرت انگیز ہے وطن عزیز میں ہمارے اکثر رہنما عوام کا اعتماد حاصل کرنے کے لئے یہ بات کرتے ہیں کہ کرپشن ختم کرنے کے لئے وہ اقدامات اٹھانے ہوں گے جو کہ چین نے اٹھائے ہیں یہاں تک کہ جب ملک سے غربت ختم کرنے کی بات کی جاتی ہے تو تب بھی چین کے ماڈل کا حوالہ دیا جاتا ہے پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کہنے کو تو یہ بات بڑی آسان ہے پر اس پر عملدرآمد کرنا مشکل ہے اس کے لئے سخت فیصلے کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اس سال کے اوائل میں چین کی ایک عدالت نے ایک نامور بینکر کو موت کی سزا دی کیونکہ اس پر کرپشن اور اپنے اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزامات ثابت ہو گئے تھے یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ وہ بینکر کوئی عام آدمی نہ تھا وہ ایک اہم اثاثہ جاتی مینجمنٹ کمپنی کا چیئرمین تھا وہ حکومتی کیمونسٹ پارٹی کا ایک اہم رکن بھی تھا جس کے ایوان اقتدار میں میں اہم لوگوں کے ساتھ ذاتی تعلقات تھے اس کے باوجود عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ اس کا جرم ناقابل معافی ہے وہ گردن زدنی ہے کیونکہ اس نے قومی خزانے کو لوٹا ہے اور عوام اور ملک کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہے‘ چند دن قبل ایک خبر آئی کہ چین میں ایک کمپنی کے سینئر افسر کو اس بات پر استعفیٰ دینا پڑا کہ اس نے اپنی کمپنی کے ایک دوسرے رکن کو گالیاں دی تھیں‘چین میں کمپنیوں کے اندر جو ضابطہ اخلاق رائج ہے اس میں گالی گلوچ ناقابل معافی جرم ہے اس سینئر افسر نے کوئی کرپشن نہیں کی تھی اور نہ کوئی فراڈ کیا تھا پر اس نے جو حرکت کی وہ ضابطہ اخلاق کے خلاف تھی ان دو مثالوں کا ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ان دو مختلف قسم کے کیسز سے پتہ چلتا ہے کہ چین کے معاشرے میں ضابطہ اخلاق کس قدر اونچے مقام تک پہنچ گیا ہے چین میں غریب اور امیر کیلئے ایک ہی قسم کا قانون ہے۔