فارن فنڈنگ: اصولوں کی سیاست۔۔

پاکستان کی آئینی تاریخ میں لاتعداد ایسے عجائبات اور معمے ہیں جن کا جواب تلاش کرنے (کریدنے سے) مزید سوالات اور الجھنیں پیدا ہوتی ہیں۔ ایسا ہی ایک معاملہ فارن فنڈنگ کیس ہے اس حوالے سے الیکشن کمیشن پہلے ہی ایک وضاحتی بیان جاری کر چکا ہے کہ غیر ملکی فنڈنگ کے معاملے کی تحقیقات کے لیے سکروٹنی کمیٹی کی کاروائی بند کمرے میں (اِن کیمرہ) ہوگی۔ تحریک انصاف کی جانب سے یہ جواب فارن فنڈنگ کیس میں پارٹی کے وکیل شاہ خاور کی طرف سے الیکشن کمیشن میں جمع کروایا گیا ہے۔ درخواست گزار اکبر ایس بابر کی طرف سے ایک درخواست سکرونٹی کمیٹی میں دی گئی تھی جس میں وزیر اعظم عمران خان کے جنوبی وزیرستان میں حالیہ خطاب کو بنیاد بنایا گیا تھا۔ اس بیان میں وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ ان کی جماعت کو بیرون ممالک سے جتنے بھی فنڈز ملے ہیں ان کے شواہد ان کی جماعت کے پاس موجود ہیں لہٰذا وہ اس سکروٹنی کمیٹی کی کاروائی کو اوپن کرنے کو تیار ہیں۔ مذکورہ درخواست کے حوالے سے جواب میں کہا گیا ہے کہ چونکہ الیکشن کمیشن اکیس جنوری کو ایک وضاحتی بیان جاری کر چکا ہے کہ سکروٹنی کمیٹی کی کاروائی ان کیمرہ ہی ہوگی تاہم جب سکروٹنی کمیٹی اس معاملے میں اپنی سفارشات الیکشن کمیشن کے حکام کو بھجوائے گی تو ان سفارشات کی روشنی میں الیکشن کمیشن میں ہونے والی کاروائی اوپن کورٹ میں ہو گی۔ الیکشن کمیشن کو درخواست میں اکبر ایس بابر کی طرف سے وزیر اعظم کے اس بیان کو کہ ان کے پاس غیر ملکی فنڈنگز کے تمام شواہد موجود ہیں کو بنیاد بناتے ہوئے یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ چالیس ہزار ڈونرز کے ناموں اوربینک اکاو¿نٹس کی تفصیلات بھی فراہم کریں جن میں تحریک انصاف کے لئے غیر ملکی فنڈز آئے ہیں۔ تحریک انصاف کی جانب سے اس معاملے کے بارے میں اپنے جواب میں سکرونٹی کمیٹی کو کہا ہے کہ سکرونٹی کمیٹی اس بارے میں خود فیصلہ کر چکی ہے کہ وہ جس دستاویز کو مناسب سمجھے گی اس کی تفصیلات مخالف فریق کو دے دی جائیں گی۔ اکبر ایس بابر نے اس حوالے سے وزیر اعظم کے بیان کو غلط پیرائے میں لیا ہے کہ وہ پارٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے تمام دستاویزات شیئر کرنے کو تیار ہیں۔ اس سے قبل بھی سکروٹنی کمیٹی اکبر ایس بابر کی پاکستان تحریک انصاف کے دستاویزات فراہم کرنے کی متعدد درخواستوں کو مسترد کر چکی ہے۔ سکرونٹی کمیٹی کی حیثیت کسی بھی معاملے کی تحقیقات کے لئے بنائی جانے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم یعنی جے آئی ٹی کی ہوتی ہے اور جس طرح جے آئی ٹی میں ہونے والی کاروائی کو پبلک نہیں کیا جا سکتا اسی طرح سکروٹنی کمیٹی کی کاروائی کو بھی عام نہیں کیا جا سکتا۔ جس طرح جب تحقیقات کے بعد معاملہ عدالت میں جاتا ہے تو وہاں پر کاروائی اوپن ہو جاتی ہے اسی طرح سکروٹنی کمیٹی جب اپنی سفارشات الیکشن کمیشن کو دے گی تو الیکشن کمیشن کے فل بینچ کی کاروائی کھلی عدالت میں ہوگی۔ واضح رہے کہ وزیر اعظم گذشتہ چند ہفتوں کے دوران اس امر کا اظہار کرتے رہے ہیں کہ ان کی جماعت کے پاس غیر ملکی فنڈنگز کے تمام شواہد موجود ہیں جبکہ حزب مخالف کی تین بڑی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ نواز‘ پاکستان پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کے پاس شواہد موجود نہیں ہیں۔ کافی عرصے سے سکروٹنی کمیٹی سیاسی جماعتوں کی فارن فنڈنگ معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے اور اب اس کمیٹی کو اپنی سفارشات کو حتمی شکل دے دینی چاہئے کیونکہ اس معاملے میں تاخیر کی وجہ سے الیکشن کمیشن کی غیر جانبداری پر انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں۔ عام آدمی کے لئے فارن فنڈنگ کیس کوسمجھنا ضروری ہے جوممنوعہ ذرائع سے فنڈز حاصل کرنے کا معاملہ ہے اور یہ الیکشن کمیشن میں اکبر ایس بابر کی جانب سے سال 2014ءمیں دائر کیا گیا تھا۔ اکبر ایس بابر نے الزام عائد کیا تھا کہ تحریک انصاف نے بیرون ممالک مقیم پاکستانیوں کے علاوہ غیر ملکیوں سے بھی عطیات وصول کئے‘ جس کی پاکستانی قانون میں اجازت نہیں۔ اکبر ایس بابر کہتے ہیں کہ مبینہ طور پر ممنوعہ ذرائع سے پارٹی کو ملنے والے فنڈز کا معاملہ انہوںنے 2011ءمیں بھی اٹھایا تھا اور یہ کہا تھا کہ پارٹی کے ایک اور رکن جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جو اس معاملے کو دیکھے لیکن اس پر کاروائی نہ ہونے کی بنا پر وہ یہ معاملہ الیکشن کمیشن میں لے کر گئے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: سیّد وجیہہ ثانی۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)