ٹرمپ کا مواخذہ‘اسٹیبلشمنٹ کا ایک کھلا۔۔۔۔

امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ صدارت سے الگ ہونے کے بعد بھی خبروں میں موجود ہیں‘ ان کے خلاف مواخذے کی کاروائی شروع ہو چکی ہے اور پرسیکیوشن نے کیپیٹل ہل میں 6 جنوری کو ہونے والی تمام ہنگامہ آرائی کا ذمہ دار ٹرمپ کو ٹھہرایا ہے۔ ویسے تو ٹرمپ، بطور صدر امریکہ، کئی حوالوں سے تاریخی حیثیت رکھتے ہیں، مگر یہ منفرد اعزاز بھی ان کو ہی حاصل ہوا ہے کہ ایک مدت صدارت میں ہی دوسری بار ان کا مواخذہ ہو رہا ہے. عام طور پر مواخذہ ملک کے خلاف انتہائی قدم اٹھانے پر کیا جاتا ہے، دلچسپ بات یہ ہے کہ دوسری بار مواخذہ اس فعل پر ہو رہا ہے، جو صدارتی الیکشن ہارنے کے بعد اور عہدہ چھوڑنے سے پہلے سرزد ہوا‘ صدر ٹرمپ اس حوالے سے پہلے امریکی صدر بھی ہیں کہ انہوں نے پہلی بار امریکی الیکشن سسٹم پر اعتراضات اٹھائے اور صریحاً دھاندلی کا الزام لگایا ماضی میں تحفظات کے باوجود کبھی کسی صدارتی امیدوار نے ایسا الزام نہیں لگایا بلکہ نتائج خاموشی کے ساتھ قبول کر لیے صدر ٹرمپ نے تو انتقال اقتدار سے بھی انکار کر دیا تھا، مگر بعد میں خاندان کے ”چھوٹوں“ کے سمجھانے پر اس بات پر راضی ہوئے کہ وائٹ ہاو¿س چھوڑ دیں گے ،لیکن نئے منتخب صدر کی حلف برداری میں شریک ہونے سے انکار کر دیا لیکن ان کی طرف سے ترغیب پر پارٹی کے جنونی کارکنوں نے کیپیٹل ہل میں وہ ہلڑ بازی کی کہ دنیا حیران رہ گئی، واشنگٹن کے شہر اقتدار میں اس طرح کا مظاہرہ پہلے نہیں دیکھا گیا تھا مظاہرین نے سینٹ ہال میں توڑ پھوڑ بھی کی اور پارلیمنٹ کی توہین بھی اور یہ اقدام غداری کے زمرے میں آتا ہے اسی پر صدر ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی تحریک شروع ہوئی اور سینیٹ نے اکثریت کے ساتھ اس کی منظوری دے دی عام طور پر کسی ملک کے صدر کے خلاف مواخذے کی تحریک کا مقصد اسے عہدے سے ہٹانا ہوتا ہے، لیکن یہ شاید دنیا میں پہلی مثال ہوگی کہ ایک سابق صدر کے خلاف یہ بڑا اقدام اٹھایا گیا ہے اس کی وجہ مستقبل میں کسی ایسی کوشش کی حوصلہ شکنی ہے، جس سے امریکی اسٹیبلشمنٹ کو چیلنج کیا گیا ہو امریکہ جمہوریت کا چیمپئن بنا پھرتا ہے لیکن یہ بات ثابت ہوگئی کہ امریکی مقتدر حلقے اپنے پیچیدہ اور متنازعہ انتخابی نظام پر کسی کو بات کرنے کی بھی اجازت نہیں دیتے اس سے پہلے 1992 میں صدر بش جونیئر کے الیکشن پر بھی اعتراض ہوا تھا، اور ہارے ہوئے صدر بش کو جتا دیا گیا تھا۔وجہ عراق اور مشرق وسطی میں امریکی فوج کشی کو جاری رکھنا تھا پھر 2016 میں ہیلری کلنٹن کو پاپولر ووٹ جیتنے کے باوجود، ہرا دیا گیا کہ وہ خاتون تھیں، اور امریکی اسٹیبلشمنٹ ابھی تک کسی خاتون کو صدرکا عہدہ دینے پر تیار نہیں اس کے نتیجے میں ٹرمپ جیسا صدر امریکہ کا مقدر بنا، جو باقی دنیا کےلئے تو کافی بہتر رہا ،کیونکہ اس نے فوج اور اسٹبلشمنٹ کے کہنے پر دنیا میں کوئی نئی جنگ نہیں چھیڑی بلکہ مشرق وسطیٰ اور افغانستان سے فوج نکالنے کا فیصلہ کیا لیکن امریکہ کےلئے وہ ایک بھیانک خواب ثابت ہوئے، طویل عرصہ بعد امریکہ میں نسل پرستی کو فروغ ملا اور شدید ہنگامے ہوئے مسلمان ممالک کے شہریوں پر سفری پابندیاں لگائیں، ہمسایہ ممالک اور یورپی یونین کے ساتھ تعلقات خراب کیے اور آخر میں امریکہ میں صدارتی انتخابی عمل کو دنیا کے سامنے بے نقاب کر دیا اور پہلی بار عوام کو احتجاج پر اکسایا یہ ایسے جرائم ہیں جن کو امریکی اسٹیبلشمنٹ کسی صورت نظرانداز نہیں کر سکتی صدر ٹرمپ کی وجہ سے ہی پہلی بار روس اور چین پر انتخابات میں دخل اندازی کا الزام بھی لگایا گیا جس سے پتہ چلتا ہے کہ کوئی نہ کوئی کمزور پہلو ضرور موجود ہے،جس سے امریکی صدارتی الیکشن سبوتاڑژکئے جا سکتے ہیں اب یہ بات کھل گئی ہے کہ دوسرے ممالک میں جمہوریت پر اعتراض کرنے اور دوسرے ممالک کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مراسم رکھ کر جمہوری عمل کو کمزور کرنے والے امریکہ کا اپنا اندرونی نظام بھی اتنا ہی "جمہوری" ہے، جتنا کسی تیسری دنیا کے ملک کا وہاں بھی اسٹیبلشمنٹ پہلے پارٹیوں میں صدارتی امیدوار کی نامزدگی میں مداخلت کرتی ہے، اور پھر انتخابی عمل میں اپنی مرضی چلاتی ہے مختلف ریاستوں کی مختلف الیکٹورل ووٹ کے باعث بھی مقبول ووٹ کا اثر زائل کیا جا سکتا ہے اس بار صدر ٹرمپ نے 7 کروڑ سے زائد ووٹ لے کر ایک ریکارڈ قائم کیا مگر اس کے توڑ کے لیے ڈاک کے ذریعے ووٹ پول ہونے کا ڈرامہ رچا کر ٹرمپ کو ہرایا گیا صدر ٹرمپ نے ڈاک کے ذریعے پول ہونے والے ووٹوں کی دوبارہ گنتی اور فرانزک کا مطالبہ کیا، جو ہر سطح پر مسترد کر دیا گیا اس ناانصافی پر احتجاج کرنا بھی صدر ٹرمپ کا جرم بن گیا اور اب صدارت سے الگ ہونے کے باوجود مواخذے کا عمل شروع کرکے، آئندہ آنے والے کسی بھی صدر کو یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ وہ اپنی عوامی حمایت کے بجائے اسٹبلشمنٹ کے فیصلوں کو خاموشی کے ساتھ قبول کریں، ورنہ ان کو غدار تصور کیا جائے گا۔