بعد از خرابی بسیار ۔۔۔۔،۔۔۔

 بعد از خرابی بسیار غزہ پر آگ کے شعلے برسانے اور سینکڑوں نہتے فلسطینیوں کو شہید اور معذور کرنے کے بعد اسرائیل نے جنگ بندی کی بھی تو کیا کی اس کے چند گھنٹوں بعد ہی مسجد اقصی میں نمازیوں پر پھر گولیاں اس لئے برسا دیں کہ وہ جنگ بندی پر جشن کیوں منا رہے ہیں بربریت کی بھی کوئی حدہوتی ہے صیہونیوں نے تو ہٹلر کی بربریت کا بھی ریکارڈ توڑ دیا ہے اقوام متحدہ نے امریکہ کے دباؤ کی وجہ سے کبھی بھی ہماری اس تجویز پر اپنا کان نہیں دھرنا کہ وہ بین الاقوامی فوج تشکیل دے کر فلسطین کے اندر تعینات کرے تاکہ مستقبل میں فلسطینیوں کو صیہونیوں کے ظلم کا نشانہ بننے سے بچایا جا سکے لہٰذا اس ضمن میں جو کچھ بھی کرنا ہو گا مسلمان ممالک نے خود کرنا ہوگا اب دیکھنا یہ ہو گا کہ بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنے کی سکت کس مسلمان ملک میں ہے۔اب ذرا ملک کی معیشت کو دستاویزی کرنے کی بات ہو جائے جسے ماہرین معیشت اپنی زبان میں ڈاکومینٹیشن آ ف اکانومی کہتے ہیں اس اہم معاملے سے ہمارے سیاسی رہنماؤں کی بے اعتنائی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پارلیمنٹ میں اس پر بحث و مباحث کیلئے نہ ہم نے حزب اختلاف اور نہ حزب اقتدار کو کسی گرم جوشی کا مظاہرہ کرتے دیکھا ہے ویسے تو یہ لوگ ملکی معیشت کو درست کرنے کیلئے منصفانہ ٹیکسیشن کے نظام کے نفاذ کی بات تو بہت کرتے ہیں پر عملی طور پر کوئی قدم نہیں اٹھاتے اس ملک میں معاشی انصاف کیسے جنم لے گا اگر اس میں رہنے والے حصہ بقدر جثہ کے حساب سے ٹیکس ادا نہیں کریں گے۔ حال میں سیاسی منظرنامے پر کچھ ایسے واقعات بھی پیش آئے ہیں جس سے گرماگرمی میں اضافہ ہوا ہے اور آنے والے وقتوں میں مزید ہلچل کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ ایک سیاسی گروپ کی تشکیل اور پھر اسکے بعد پیش آنے والے واقعات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ہمارے ہاں سیاسی رجحانات میں تبدیلی لانے کی اشد ضرورت ہے اور اراکین اسمبلی کو زیادہ تر توجہ قانون سازی پر مرکوز رکھنی چاہئے تاکہ ایسے قوانین سامنے لائے جا سکیں جن سے عام آدمی کی زندگی میں آسانی فراہم ہو‘ جس کسی نے بھی انہیں ترقیاتی فنڈز دینے کی پالیسی ایجاد کی ہے اس نے اس ملک اور قوم کے ساتھ بہت بڑی زیادتی کی ہے کیونکہ اب ان کو ہر سال کروڑوں روپے کے ان فنڈز کی لت پڑگئی ہے اور انکی توجہ قانون سازی کی بجائے دیگر معاملات پر مرکوز رہتی ہے‘ وزیر اعظم صاحب جب اقتدار میں نہیں آ ئے تھے تو انہوں نے ببانگ دہل اعلان کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آ کر اس لعنت کو ختم کر دیں گے پر اب لگتا ہے کہ اس معاملے میں بھی مصلحت سے کام لیا جارہا ہے۔ اس ملک کو جہاں زندگی کے دیگر شعبوں میں اصلاحات کی از حد ضرورت ہے وہاں الیکٹورل سسٹم میں بھی کافی اصلاحات درکارہیں جن ممالک میں الیکشن کا نظام درست چل رہا ہے اور وہاں کسی قسم کی دھاندلی کرنے کی کوئی جرات نہیں کر سکتا۔ہمیں ان کے ہاں رائج الیکٹورل سسٹم کا بھی بغور جائزہ لینا چاہئے ہمیں لکیر کا فقیر نہیں ہونا چاہئے ہر ملک کو دوسرے ممالک کے زندگی کے مختلف شعبوں میں کامیاب تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ اس وقت حکومت جن انتخابی اصلاحات کی بات کر رہی ہے اس میں حزب اختلاف کو بھی بھرپور ساتھ دینا چاہئے چاہے وہ الیکٹرونک مشین کا معاملہ ہے یا دیگر احتیاطی اقدامات اس سے  انتخابی عمل پر عوام کا اعتماد بڑھتا جائے گا۔