ملکی اور غیر ملکی اہم امور۔۔۔۔

لگتا ہے کہ پی پی پی اور نواز لیگ کے درمیان پرانی سیاسی رقابت ایک مرتبہ پھر ا مڈ کر سامنے آ گئی ہے جس سے مولانا فضل الرحمان صاحب کی ان کوششوں کو دھچکا لگ رہا ہے جو وہ ان دو سیاسی پارٹیوں کو اہک پلیٹ فارم پر لانے کیلئے کر رہے ہیں بلاول کمال سیاسی مہارت سے شہباز شریف اور ان کی بھتیجی کے درمیان نواز لیگ کے اندر اقتدار کی جنگ کو اپنے بیانات سے اُجاگر کر کے اسے سیاسی طور پر ایکسپلائٹ (exploit) کر رہے ہیں ان کا یہ تازہ ترین بیان بڑا معنی خیز ہے کہ وہ شہباز شریف کے موقف کو نواز لیگ کی پالیسی مانتے ہیں یہ بیان مریم نواز کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہیادھر پی ٹی آئی کے اندر ایک اور سیاسی دھڑا سامنے آ گیا ہے یعنی یک نہ شد دو شد 15 ارکان اسمبلی پر مشتمل یہ گروپ ان 32 ارکان اسمبلی کے علاوہ ہے کہ جنہوں نے جہانگیر ترین کے ساتھ وفاداری کی قسمیں کھائی ہیں۔سندھ اور پنجاب دونوں کے اندر جرائم کی شرح میں اضافہ نظر آ رہا ہے اور وہاں ایک بد ترین قسم کا ڈاکو راج ہے ببانگ دہل لوگوں کی دکانوں سے پیسے لوٹے جا رہے ہیں سرکاری سڑکوں پر سفر غیر محفوظ ہو گیا ہے۔جلد یا بدیر حکومت کو رینجرز کی خدمات حاصل کرنا ہوں گی اورہو سکتا ہے کہ اس تحریر کے منظر عام آ نے سے پہلے ہی رینجرز نے ان دو صوبوں میں امن عامہ کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیا ہوہم نے بارہا یہ سوال اٹھایا ہے کہ جب تک پولیس فورس میں خصوصا نچلے کیڈرز کی بھرتی میں سیاسی مداخلت بند نہ ہوگی جب تک ان کو جدید تریں اسلحہ سے لیس نہیں کیا جاے گا جب تک ان کی جدید ترین طریقے سے تربیت نہیں کی جائے گی اور جب تک ممنوعہ بور کا اسلحہ رکھنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن نہیں کیا جائے گا ڈاکو اس ملک کے امن کو تاراج کرتے رہیں گے پر یہ بات بھی ہمیں ملحوظ نظر رکھنی چاہئے کہ ان ڈاکوؤں کو اپنے اپنے علاقوں کے بارسوخ افراد کی آشیرباد حاصل ہوتی ہے۔ایک اور ہم پیش رفت خطے سے امریکی افواج کی واپسی کا عمل ہے جس کا آغاز ہو چکا ہے اور ستمبر میں یہ مرحلہ انجام کو پہنچنے کا امکان ہے۔ تاہم سننے میں آرہا ہے کہ امریکہ افغانستان سے فوج نکالنے کے باوجود خطے میں اپنی فوجی موجودگی کی راہ ہموار کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ پاکستان نے تو کھل کر انکار کر دیا ہے کہ امریکہ کوفوجی اڈے کی سہولت فراہم کرنا خارج از امکان ہے۔ تاہم امریکہ پاکستان کو چھوڑ کر بھی کئی ممالک کے ساتھ بات چیت میں مصروف ہے۔جونہی طالبان کو یہ بھنک پڑی کہ پینٹاگون افعانستان سے تو اپنی افواج شاید نکال لے پر جاتے جاتے وہ کہیں آس پاس کے ممالک میں اپنے فوجی اڈے نہ بنا ڈالے تو انہوں نے فوری طور ہر اس خدشے پر اپنا رد عمل یہ کہہ کر ظاہر کیا کہ امریکہ کو اڈے دینا تاریخی غلطی ہو گی اس خطے میں غیر ملکی افواج کی موجودگی کا خمیازہ بھگت رہے ہیں اور امریکہ اس پاس رہنا چاہتا ہے۔جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو چین کے ساتھ کئی سی پیک جیسے منصوبے میں شراکت اور حال ہی میں روس کے ساتھ تیل پائپ لائن کا معاہدہ ہونے کے بعد وہ ان ممالک کو ناراضگی مول لینے کی پوزیشن میں ہر گز نہیں اس طرح یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب بھی کسی ملک نے امریکہ کا ساتھ دیا ہے تو امریکہ نے الٹا اس کیلئے ہی مشکلات پیدا کر دی ہیں اور اس امریکہ کی اس تاریخ سے خطے کے سب ہی ممالک آگاہ ہیں۔ اس لئے مشکل ہے کہ افغانستان سے فوج نکالنے کے بعد اسے خطے میں فوجی اڈہ دینے کیلئے کوئی ملک حامی بھر لے گا۔