پلاسٹک آلودگی کے خطرات سامنے آگئے

ایمسٹر ڈیم، ہالینڈ: سائنس دان ایک عرصے سے پلاسٹک آلودگی کے ہول ناک خطرات سے خبردار کرتے آرہے ہیں اور اب پہلی مرتبہ پلاسٹک کے باریک اور خردبینی سطح کے ذرات خون میں دریافت ہوئے ہیں جو ایک بھیانک خواب سے کم نہیں۔

اس تجربے میں جن افراد کو جانچا گیا ان کے 80 فیصد شرکا کے خون میں خردبینی پلاسٹک پایا گیا۔ اب تک اس کے انسانی صحت پر اثرات پر تحقیق نہیں کی گئی تاہم تجربہ گاہ میں یہ ذرات انسانی خلیات (سیل) کو نقصان پہنچاتے دیکھے گئے ہیں۔ اسی بنا پر ماہرین کا خیال ہے لہو میں دوڑتے یہ ذرات انسانی اعضا کو متاثر کرسکتے ہیں لیکن پھر بھی اس پر تفصیلی تحقیق کی ضرورت ہے۔

ماہرین نے کہا کہ ہم نے زمین، سمندر، ریگستان اور کھیتوں میں دھڑا دھڑ پلاسٹک ڈالا ہے جو ہزاروں برس میں بھی گھل کر ختم نہیں ہوتا بلکہ رگڑ اور ٹوٹ پھوٹ سے باریک ذرات میں ڈھلتا رہتا ہے، اس سے قبل انسانوں کے فضلے میں بھی پلاسٹک دریافت ہوچکا ہے۔

ہالینڈ کی وریج یونیورسٹی کے پروفیسر ڈِک ویتھاں اور ان کے ساتھیوں نے 22 تندرست افراد کو بھرتی کیا جن میں سے 17 افراد کے بدن میں پلاسٹک پایا گیا جو عام بوتلوں سے تعلق رکھتا تھا۔ ایک تہائی افراد میں پولی اسٹائرین کے آثار ملے جو پیکنگ پلاسٹک سے تعلق رکھتے ہیں۔ اسی طرح کچھ لوگوں میں شاپنگ بیگ سے اترنے والے ذرات بھی دیکھے گئے۔

واضح رہے کہ یہاں پلاسٹک خون میں پایا گیا ہے تاہم پروفیسر ڈِک نے کہا ہے کہ اگلے مرحلے میں لوگوں کی بڑی تعداد کو شامل کرکے پلاسٹک ذرات کی اقسام اور جسامت پر غور کیا جائے گا، فی الحال جو ذرات ملے ہیں ان کی جسامت 0.0007 ملی میٹر دیکھی گئی ہے۔ خون کے بعض نموںوں میں دو اور کچھ میں تین اقسام کے پلاسٹک بھی دیکھے گئے ہیں۔

سب سے اہم سوال یہ ہے کہ انسانوں پر اس کے کیا اثرات ہوسکتے ہیں۔ پھر یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ یہ کتنی دیر تک بدن میں رہ سکتے ہیں اور دیگر اعضا تک پہنچ بھی رہے ہیں یا نہیں۔ اسی لیے اس مسئلے پر طویل تحقیق کی ضرورت ہے۔