عمر میں اضافے کیساتھ دماغ کا حجم کم ہوجاتا ہے ، نئی تحقیق

حال ہی میں کی گئی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ عمر میں اضافے کے ساتھ ساتھ دماغ کے حجم میں کمی آتی جاتی ہے، اس تحقیق کے لیے 1 لاکھ سے زائد افراد کی جانچ کی گئی۔

بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق کافی عرصے سے سائنس دانوں کا ماننا ہے کہ عمر کے ساتھ ساتھ انسانی دماغ کے حجم میں تبدیلیاں آتی ہیں، مگر اب پہلی بار اس کی نشوونما کا مکمل چارٹ تیار کیا گیا ہے۔

15 ہفتوں کے بچوں سے لے کر 100 سال کی عمر کے افراد کے دماغی اسکینز سے معلوم ہوا کہ زندگی کی ابتدا میں دماغ تیزی سے پھیلتا ہے اور عمر بڑھنے کے ساتھ بتدریج سکڑنے لگتا ہے۔

برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی کی اس تحقیق میں 6 براعظموں سے تعلق رکھنے والے 1 لاکھ 25 ہزار کے قریب افراد کے دماغی اسکینز کے اس ڈیٹا کی جانچ پڑتال کی گئی جو سابقہ تحقیقی رپورٹس میں اکٹھا کیا گیا تھا۔

یہ انسانی دماغ کی نشوونما کا پہلا چارٹ بھی ہے جس کے نتائج چونکا دینے والے ہیں۔

ماہرین نے بتایا کہ عالمی سطح پر کوشش کر کے ہم نے پوری زندگی کے دماغی نشوونما کے ڈیٹا کو اکھا کیا جس سے ہمیں ابتدائی زندگی میں تیزی سے ہونے والی دماغی تبدیلیوں کو جانچنے کا موقع ملا اور یہ بھی علم ہوا کہ عمر بڑھنے کے ساتھ دماغ سست روی سے تنزلی کا شکار ہونے لگتا ہے۔

تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ دماغی خلیات یا گرے میٹر کا حجم 6 برس کی عمر میں عروج پر ہوتا ہے جس کے بعد یہ بتدریج گھٹنے لگتا ہے۔

اسی طرح وائٹ میٹر یا دماغی کنکشن کا حجم بچپن میں تیزی سے بڑھتا ہے اور 29 سال کی عمر سے قبل عروج پر ہوتا ہے جبکہ اس کے حجم میں کمی کا عمل 50 سال کی عمر میں تیز ہوجاتا ہے۔

جسمانی افعال اور بنیادی رویوں کو کنٹرول کرنے والے دماغی حصے کا حجم 14 سال کی عمر میں عروج پر ہوتا ہے۔ اس دماغی چارٹ سے سائنس دانوں کو دماغی امراض کے شکار افراد کے دماغ میں آنے والی تبدیلیوں کو جانے کا موقع بھی مل سکے گا۔

الزائمر امراض کے شکار افراد کے دماغی افعال تنزلی کا شکار ہوتے ہیں جبکہ دماغی ٹشوز کی محرومی کا سامنا بھی ہوتا ہے، جس وجہ سے ان افراد کے دماغ کا حجم دیگر کے مقابلے میں کم ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔

ماہرین کے مطابق ویسے تو عمر کے ساتھ دماغ کا حجم قدرتی طور پر گھٹنے لگتا ہے مگر الزائمر کے مریضوں میں یہ عمل بہت تیز رفتاری سے ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم ابھی بھی اپنے دماغی چارٹس کے حوالے سے ابتدائی مرحلے سے گزر رہے ہیں مگر ان سے دماغی نشوونما اور ہمارے جذبات کے حوالے سے کافی کچھ معلوم ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ ان چارٹس کو مریضوں کی اسکریننگ کے لیے استعمال کیا جاسکے گا، مثال کے طور پر ڈاکٹروں کو دماغی تنزلی کے آثار دیکھنے کا موقع مل سکے گا۔