لاہور: پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے دسمبر میں ہی اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ جنرل (ر)باجوہ کہتے تھے اگلی بار ن لیگ آرہی ہے۔
نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ اسمبلیاں تحلیل کرنے کا جو فیصلہ کیا اس پر عمل کریں گے، اس حوالے سے پارٹی میں مشاورت جاری ہے جس میں آئینی اور قانونی نکات کو بھی دیکھ رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ جیسے ہی اسمبلیاں تحلیل ہوں گی تو 48 گھنٹے کے بعد نگراں سیٹ اپ آجائے گا۔
پی ٹی آئی چیئرمین نے کہا کہ پرویز الہٰی کا خیال ہے اسمبلیاں کچھ دیر اور چلنی چاہیے مگر وزیراعلیٰ پنجاب نے اسمبلی تحلیل کے فیصلے کا حتمی اختیار مجھے دے دیا ہے اور ہم نے دسمبر میں ہی انہیں تحلیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ آئند انتخابات کے بعد پرویز الہٰی کو وزیراعلیٰ بنانے کی کوئی بات نہیں ہوئی۔جنرل (ر)باجوہ کہتے تھے اگلی بار ن لیگ آرہی ہے عمران خان نے الزام عائد کیا کہ جنرل (ر)باجوہ کہتے تھے کہ اگلی بار ن لیگ آرہی ہے اور کوئی پی ٹی آئی کا ٹکٹ نہیں لے گا، یہ خود کو غیر سیاسی کہہ کر پھر سیاسی بن جاتے ہیں۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے دعوی ٰکیا کہ جنرل باجوہ علیم خان کو وزیراعلیٰ پنجاب بنانے کا کہتے رہے، ان کا بزدار کو ہٹانے کا مطالبہ عجیب تھا جبکہ ایل ڈے اے نے بتایا تھا کہ علیم خان نے اربوں روپے مالیت کی اراضی پر قبضے کیے ہوئے ہیں اور پرویز الہٰی نے بھی کہا تھا کہ وہ علیم خان کو وزیراعلیٰ پنجاب کیلئے ووٹ نہیں دیں گے۔ ان کو این آر او ون مشرف نے دیا تھا اور این آر او ٹو جنرل باجوہ نے دیا۔
رانا ثنااللہ کی باتوں کوکبھی سنجیدہ نہیں لیا، دسمبرمیں اسمبلیاں تحلیل کردیں گے، معیشت اوپر اٹھانی ہے تو سیاسی استحکام ہونا چاہیے جس کے لیے انتخابات ضروری ہیں، یہ دس ماہ بعد الیکشن کرائیں یا ایک سال بعد کرائیں، یہ ہار جائیں گے۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ پرویزالہیٰ کا خیال ہے کہ حکومت تھوڑی اور چلنی چاہیے، پرویز الہٰی نے کہا ہے حکومت ختم کرنے کے حوالے سے جیسا میں کہوں گا ویسا وہ کریں گے، پرویز الہیٰ نے دوبارہ وزیراعلی بنانیکا کوئی مطالبہ نہیں رکھا۔
چیئرمین پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ ہمارے ساتھ جویہ 7 ماہ میں ہوا اس میں جنرل (ر) باجوہ کی پالیسیاں رہیں، جنرل (ر) باجوہ نے کہا تھا کہ عثمان بزدارکو ہٹائیں، وہ علیم خان کو وزیراعلی پنجاب بنانیکا کہتے تھے، ان کا بزدار کو ہٹانیکا مطالبہ عجیب تھا، علیم خان کا نام لیا گیا توپرویز الہی نیکہا کہ وہ اسے سپورٹ نہیں کریں گے، میں نے کہاعلیم خان پر بڑے الزامات ہیں اسے وزیراعلیٰ نہیں بناسکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ حکومت تبدیل کرنے میں ملوث تھے وہ سب میر جعفر اور میرصادق ہیں، ہماری جب حکومت گئی توسب نے سوچا اب لوگ مٹھائیاں بانٹیں گے، انہوں نے سوچا کہ حکومت ختم ہونے کے بعد میری سیاست ختم ہوگئی، جنرل (ر) باجوہ کہتے تھے پی ٹی آئی سے کوئی ٹکٹ نہیں لیگا اور اگلی باری ن لیگ کی آرہی ہے۔
سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ان کی سب سے بڑی کوشش ہیکہ مجھے نااہل کرایا جائے، نواز شریف کی کوشش ہیکہ ان پرکیسز ختم ہوجائیں اور مجھے نااہل کیا جائے، ان کو این آر او ون مشرف نے دیا اور این آر او ٹو جنرل باجوہ نے دیا، جب تک کیسز ختم نہیں ہوں گے نواز شریف واپس نہیں آئیں گے، اگر نواز شریف پنجاب میں آئے تو انہیں گرفتار کیا جائیگا۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ جو لوگ لوٹے ہوئے،جنہوں نے غداری کی عوام نے ان کو الیکشن میں سزا دی، جنرل (ر) باجوہ شہبازشریف کو جینیئس سمجھتے تھے، نیب جنرل (ر) باجوہ کے نیچے تھی اور ان کے کنٹرول میں تھی اس لیے وہ فیصلہ کرتے تھے کس کو اندر جانا ہے کس کو باہر، نیب کے ذریعے کسی کو اندر کرنا یا باہر نکالنا ہمارے ہاتھ میں نہیں تھا، ہمارے پاس اختیار نہیں تھا جن کو اختیار تھا۔
انہوں نے ان کو ریلیف دیا، ہمیں کہا جاتا تھا آپ معیشت دیکھیں احتساب کو چھوڑ دیں۔جنرل فیض کو آرمی چیف بنانے کا کبھی نہیں سوچا نہیں تھا ان کے خلاف جان بوجھ کر پروپیگنڈہ کیا گا ریٹائرمنٹ کا فیصلہ ان کا ذاتی ہے۔