سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ یہ پہلی بار ہوا ہے کہ اپنی گھڑی بیچنے پر اتنا شور مچا ہے، میری اپنی گھڑی تھی میں بیچوں یا جو مرضی کروں مگر چینلز لوگوں کے معاشی قتل پر کیوں خاموش ہیں۔
لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ یہ پہلی بار ہوا ہے کہ میں اپنی ہی گھڑی بیچوں تو اس پر اتنا شور مچا ہے مگر مجھے افسوس ہے کہ وہ چینلز جو سارہ دن عمران خان کی گھڑی کے پیچھے پڑے ہیں وہ مہنگائی پر خاموش ہیں۔
عمران خان نے کہ یہ پہلی بار ہوا ہے کہ اپنی گھڑی بیچنے پر اتنا شور مچا ہے، میری اپنی گھڑی تھی میں بیچوں یا جو مرضی کروں مگر وہ چینلز لوگوں کے معاشی قتل پر کیوں خاموش ہیں۔
سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ہمارے دورِ حکومت میں مہنگائی کی شرح 12 عشاریہ 5 فیصد تھی جس پر بلاول بھٹو زرداری نے جوش میں کہا تھا کہ میں مہنگائی مارچ کرنے جا رہا ہوں مگر موجودہ حکومت میں مہنگائی دوگنی ہوکر 24 فیصد پر پہنچ چکی ہے جو کہ 50 سال میں سب سے زیادہ ہے۔
تحریک انصاف چیئرمین عمران خان نے کہا کہ 60 کی دہائی کے بعد کسی حکومت نے برآمدات بڑھانے پر توجہ نہیں دی، اگر برآمدات نہیں بڑھیں گی تو ملک میں ڈالرز کیسے بڑھیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اب ہر ماہ پاکستان کی 18 فیصد برآمدات گر رہی ہیں جبکہ سمندر پار پاکستانیوں نے بھی ترسیلات بھیجنا بند کردی ہیں اسی طرح اگر ڈالرز نہیں آئیں گے تو ہم قرض کیسے ادا کریں گے۔
عمران خان نے کہا کہ میں اسٹیبلشمنٹ سمیت پاکستان کے ہر طبقے سے پوچھتا ہوں کہ کیا آپ کو فکر نہیں کہ پاکستان کس طرف جا رہا ہے اور جب میں انتخابات کی بات کرتا ہوں تو اپنے لیے اور تحریک انصاف کے لیے نہیں کرتا۔
انہوں نے کہا کہ مجھے خوف ہے کہ جتنی دیر موجودہ حکومت چلے گی ملک کا معاشی بہران بڑھتا جائے گا کیونکہ جب تک ملک میں سیاسی استحکام نہیں آتا، معاشی استحکام بھی نہیں آتا۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ اگر پاکستان کی ڈیفالٹ رسک سو فیصد تک بڑھ چکی ہے تو کوئی کمرشل بینک یہ سرمایہ کار پیسے نہیں لگائے گا اور موجودہ حکومت کے پاس اس کے لیے کوئی روڈ میپ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن سمیت اسٹیبلشمنٹ اور تمام طاقتور حلقے موجودہ حکومت کے ساتھ تھے مگر اس کے باوجود تحریک انصاف ضمنی انتخابات میں کامیاب ہوگئی تو اب کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے کہ کون سلیکٹڈ ہے کیونکہ میرے لیے سب کہتے تھے کہ سلیکٹڈ ہے۔
عمران خان نے کہا کہ موجودہ حکومت کی کوشش ہے کہ ان کے کیسز ختم ہوں اور مجھے افسوس ہے کہ ان کو این آر او دیا گیا اور یہ بھی پتا ہے کہ پہلا این آر او جنرل مشرف نے دیا اور دوسرا این آر او موجودہ وقت میں طاقتور نے دیا جس سے ان کے تمام کیسز ختم ہوگئے جو کہ ان کے اپنے دور میں بنے تھے۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمشنر کے ذریعے جھوٹے مقدمات تیار کرکے مجھے نااہل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس شخص کے خلاف ہم سپریم جوڈیشل کونسل تک گئے ہیں مگر ہمارے کیسز کی سماعت نہیں ہو رہی اور یہ ہم پر کیسز بناتا جا رہا ہے۔
سینیٹر اعظم سواتی پر بات کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ جو اعظم سواتی سے ہو رہا ہے ایسے حالات میں نے مارشلا دور میں بھی نہیں دیکھے۔
انہوں نے کہا کہ اعظم سواتی کا قصور یہ تھا کہ انہوں نے ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ جنرل باجوہ نے این آر او کیوں دیا جبکہ پوری دنیا کو پتا تھا کہ این آور او کس نے دیا مگر اس ٹوئٹر پر ان کو جو سزا ملی ایسا کس معاشرے میں ہوتا ہے کہ ایک سینیٹر اپنی بات نہیں رکھ سکتا۔
’کوئی شک نہیں کہ زرداری اور نواز شریف الیکشن کی طرف نہیں جائیں گے‘
عمران خان نے کہا کہ مجھے اس بات میں کوئی شک نہیں تھا کہ زرداری اور نواز شریف الیکشن کی طرف نہیں جائیں گے کیونکہ ان کو ڈر تھا کہ اگر وہ الیکشن ہار گئے تو جتنی محنت سے انہوں نے کیسز ختم کرائے تھے وہ دوبارہ نہ بن جائیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان دیوالیہ ہوا تو عام پاکستانی متاثر ہوں گے لہٰذا میں نے جو سوچا تھا وہی کروں گا اور دسمبر میں اسمبلیوں سے باہر آجائیں گے۔
’اگر الیکشن کمیشن مجھے نااہل کرتا ہے تو مزید ذلیل ہوگا‘
اپنے اتحادیوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ انہوں نے مجھے پورے اختیارات دیے ہوئے ہیں کہ میں جب بھی اسمبلیاں تحلیل کروں گا وہ سب میرے ساتھ کھڑے ہوں گے۔
الیکشن کمیشن پر تنقید کرتے ہوئے تحریک انصاف سربراہ نے کہا کہ اگر الیکشن کمیشن مجھے نااہل کرتا ہے تو مزید ذلیل ہوگا کیونکہ سب کو پتا ہے کہ اس سے زیادہ بد دیانتدار الیکشن کمشنر پاکستان کی تاریخ میں نہیں آیا کیونکہ یہ مسلم لیگ(ن) کا جیالا بن کر ہمارے خلاف کام کر رہا ہے۔
’ کیا آئین میں گنجائش تھی کہ سندھ ہاؤس میں لوگوں کی منڈی لگائیں’
عمران خان نے کہا کہ کیا آئین میں یہ گنجائش تھی کہ سندھ ہاؤس میں لوگوں کی منڈی لگا کر 20، 20 کروڑ میں لوگ خریدیں اسی طرح کیا آئین میں این آر او ٹو کی گنجائش ہے۔
’ہماری حکومت میں سمندر پاکستانیوں نے ریکارڈ 32 ارب ڈالر کی ترسیلات بھیجیں‘
تاہم عمران خان نے اپنی اور موجودہ حکومت کی کارکردگیوں، مہنگائی اور قیمتوں کے اعداد و شمار پر بات کرتے ہوئے کہا کہ جب 2018 میں ہمیں حکومت ملی تھی تو پاکستان کی تاریخ کا سب سے زیادہ 20 ارب ڈالر کا بیرونی ملک خسارہ تھا۔
سابق وزیر اعظم نے کہ ہم سے پہلے کی حکومت میں تیل کی قیمت آدھی تھی جبکہ کورونا کی پابندیوں کی وجہ سے ہمارے دور میں تیل کی قیمت 103 سے 120 ڈالر تک جا پہنچا تھا اسی طرح ڈالر کم ہوا تو روپے پر دباؤ آیا۔
عمران خان نے کہا کہ 2021 میں پاکستان کی ترقی کی شرح میں 5 عشاریہ 6 اضافہ ہوا تھا جبکہ 2022 میں 6 فیصد کا اضافہ تھا اور ایسا اضافہ یہیٰ خان، ایوب خان اور مشرف خان کے ادوار میں ہوا تھا کیونکہ اس وقت امریکا سے ڈالرز مل رہے تھے۔
تحریک انصاف چیئرمین نے کہا کہ ہماری حکومت میں سمندر پاکستانیوں نے ریکارڈ 32 ارب ڈالر کی ترسیلات بھیجیں جبکہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں 19 عشاریہ 6 فیصد کی ترسیلات تھیں اسی طرح ہم نے بیرونی ملک خسارہ 4 فیصد تک چھوڑا تھا جبکہ مسلم لیگ (ن) نے 5 عشاریہ 4 کا بیرونی ملک خسارہ چھوڑا تھا۔
عمران خان نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) نے اپنے دور میں ایک ڈیم بھی تعمیر نہیں کیا جبکہ ہم نے 6 ڈیم تعمیر کیے جس میں دو بڑے ڈیم بھی شامل ہیں اسی طرح ہم نے صحت کارڈ دیا جس کی دنیا تعریف کرتی ہے اسی طرح احساس پروگرام کو بھی ایک عالمی یونیورسٹی کی ریسرچ نے فلاحی ریاست کی طرف قدم قرار دیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ بلین ٹری سونامی منصوبے پر اس وقت کے برطانیہ کے وزیراعظم بورس جانسن نے میری تعریف کی تھی کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے خلاف جنگ میں سب سے آگے نکلا ہوا ہے۔
عمران خان نے کہا کہ جس دن عدم اعتماد کی تحریک پیش کی گئی ڈالر کی قیمت 178 روپے تھی جبکہ آج اوپن مارکیٹ میں 250 روپے کا بھی ڈالر نہیں مل رہا جبکہ اس کی سرکاری قیمت 224 روپے ہے۔