ایمرجنسی ختم‘ خطرہ برقرار

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے اعلان کیا ہے کہ کورونا وبا جس کی وجہ سے دنیا بھر میں کم از کم 70 لاکھ اموات ہوئیں‘ اب خطرہ نہیں رہا اور اِس سے نمٹنے کے لئے احتیاطی تدابیر (کورونا ایس اور پیز) پر عمل درآمد ’ہنگامی بنیادوں (ایمرجنسی)‘ کے طور پر نہیں ہونا چاہئے۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق کورونا سے ہوئیں ہلاکتوں کی اصل تعداد دو کروڑ کے قریب ہے جو سرکاری اندازوں سے تقریبا تین گنا زیادہ ہے۔ عالمی ادارہئ صحت نے اُن تمام ممالک کو بیدار رہنے کا کہنا ہے جہاں کورونا وائرس کے پھیلنے کے امکانات ہیں۔ امریکہ نے رواں سال کے اوائل میں ہی وبائی مرض (کورونا) کے خاتمے کا اعلان کر دیا گیا تھا اور اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ گیارہ مئی کے بعد مفت ویکسین اور دیگر امداد دستیاب نہیں ہوگی۔ واضح رہے کہ چین کی جانب سے کورونا وبا کے خلاف احتیاطی تدابیر ترک کئے جانے کے فوری بعد اِس کے کیسز میں اچانک اضافہ دیکھنے میں آیا تھا۔ کورونا وبا سے نمٹنے کے لئے تین سال سے زیادہ عرصے سے عالمی ایمرجنسی نافذ ہے جسے ختم کر دیا گیا ہے کیونکہ دنیا بھر میں کیسز کی تعداد کم ہو رہی ہے۔ پاکستان اُن خوش قسمت ممالک میں سے ایک تھا جہاں کورونا کی وجہ سے نسبتاً کم اموات ہوئیں جس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ کورونا اموات کے بارے میں سرکاری اعدادوشمار اُنہیں ہلاکتوں سے متعلق تھے جو سرکاری ہسپتالوں میں ہوئیں اور یوں کم رپورٹنگ کی وجہ سے کورونا اموات کی شرح بھی کم رہی۔ پاکستان میں فی الوقت کورونا کی صورتحال کیا ہے اِس بارے میں موجود معلومات اور اعدادوشمار قابل بھروسہ نہیں کیونکہ ایک تو کورونا معلوم کرنے کے لئے جانچ پڑتال (ٹیسٹنگ) کے وسائل کی کمی ہے اور دوسرا دیہی علاقوں میں کورونا سے متعلق بیداری بھی کم ہے جہاں سے زیادہ تر کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں۔ متعدی امراض سے نمٹنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ کورونا وائرس کی نئی یا پرانی اقسام پاکستان کے کچھ حصوں میں اب بھی موجود ہیں۔کورونا وائرس کا خاتمہ اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والی ایمرجنسی دنیا کے لئے نئی نہیں ماضی میں کئی دہائیاں پہلے ہسپانوی فلو آیا تاہم کورونا سے نمٹنے کے لئے دنیا جس انداز میں منظم ہوئی ایسی مثال ماضی میں دیکھنے میں نہیں آئی۔ اب جب کورونا وبا انفرادی نگرانی پر منحصر ہے اور اس بات کا اعادہ کرنا اور بھی اہم ہے کہ وائرس اپنی جگہ موجود ہے اور یہ خطرہ کم ضرور ہوا ہے لیکن ابھی ختم نہیں ہوا۔ ڈبلیو ایچ او کے سربراہ کا کہنا ہے کہ اب کوئی بھی ملک جو بدترین کام کر سکتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ اس خبر کو اپنے ہی بنائے ہوئے نظام کو ختم کرنے کے لئے استعمال کرے اور اپنے ہاں یہ پیغام دے کہ کورونا کے بارے میں فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔“ پاکستان پہلے ہی اپنی سرزمین سے پولیو وائرس کا خاتمہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا اور یہ افغانستان کے بعد دنیا کا واحد ایسا ملک ہے جہاں پولیو موجود ہے۔ اِسی طرح عالمی سطح پر رونما ہونے والی موسمیاتی تبدیلیاں بھی پاکستان پر سب سے پہلے اور زیادہ اثرانداز ہوئی ہیں۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے قطبی برف پگھلنے کے ساتھ ہی نئے وائرس شاید زولوجیکل یا حیاتیاتی ذرائع سے حملہ آور ہوں گے کیونکہ انسان اُن علاقوں تک پہنچ چکے ہیں جہاں کبھی بھی آبادی نہیں رہی اور دنیا تیزی سے پھیل اور تبدیل ہو رہی ہے۔