افغانستان میں چین کی سرگرمیاں 

افغانستان کے دارالحکومت کابل میں بیرونی ملکوں کے سفیروں کی تعداد بہت کم ہے۔ تاہم افغانستان میں چین کے سفیر وانگ یو سب سے زیادہ مصروف دکھائی دیتے ہیں۔وانگ نے اس ہفتے تین طالبان وزراءسے ملاقات کی جن میں سے دو کو خاص طور پر مغربی سفارت کاروں نے نظر انداز کیا ہے ۔ادھر بیجنگ میں طالبان کے سفیر سید محی الدین سادات کابل میں اپنے ہم منصب کی طرح چینی حکومت اور کاروباری شعبے کے حکام کے ساتھ انتہائی مصروف وقت گزارتے ہیں ۔ چین ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں طالبان کے چارج ڈی افیئرز موجود ہیں ۔ چین نے اگر چہ رسمی طور پر طالبان کو تسلیم تو نہیں کیا تاہم عملی طور پر طالبان حکومت کے ساتھ نہ صرف افغانستان کی قانونی حکومت کی حیثیت سے بلکہ تجارت، سرمایہ کاری اور سیکورٹی شراکت دار کے طور پر تعلق جاری رکھا ہے ۔ چینی رہنما اس خیال کے تحت کام کرتے ہیں کہ مغرب کے ساتھ مسابقت میں ان کی کامیابی کا دارومدار افغانستان جیسی چھوٹی اور درمیانی ریاستوں پر اثرورسوخ قائم کرنے پر ہے۔چین اور افغانستان کے درمیان ایک ناہموار اور ہمیشہ بند رہنے والی 92 کلومیٹر طویل سرحدہے۔چین کے پالیسی بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ چین کبھی بھی افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتااور نہ ہی کسی طرح کے نام و رسوخ سے فائدہ اٹھاتا ہے ۔طالبان حکام اس سال کے شروع میں ایک چینی فرم کے ساتھ تیل نکالنے کے معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد اب یہ کہتے ہیں کہ چین افغانستان میں لیتھیم کی کان کنی کے لیے سرمایہ کاری میں دلچسپی رکھتا ہے افغانستان میں مبینہ طور پر ایک ٹریلین ڈالر سے زیادہ مالیت کے قیمتی معدنی ذخائر موجود ہیں۔ ان میں ری چارج ایبل بیٹریوں میں استعمال ہونے والے عنصر لیتھیم کے انتہائی مطلوب ذخائر بھی شامل ہیں۔امریکی حکام سمجھتے ہیں کہ چین جس انداز میں دو طرفہ تعلقات کو فروغ دیتا ہے اس کا مقصد مفادات کا حصول ہے ۔ افغانستان کے قدرتی وسائل میں چین کی دلچسپی نئی نہیں کیونکہ اس نے 2007 میں سابق افغان حکومت کے ساتھ تانبے کی کان کنی کے لئے کئی ارب ڈالر کا معاہدہ کیا تھا۔ تاہم اس منصوبے کا کبھی آغاز نہیں ہوا۔ان کے ساتھ تیل کا حالیہ معاہدہ وہی ہے جو چائنا نیشنل پیٹرولیم کارپوریشن نے2011میں طے کیا تھا۔افغانستان کے ساتھ چین کے تعلقات ہر دور میں قائم رہے ہیں تاہم اس وقت چین اور افغانستان کے درمیان مضبوط معاشی تعلقات استوار ہونے کی راہ ہموار ہو گئی ہے ۔ ایک طرف چین اگر براہ راست افغانستان میں سرمایہ کاری کر رہا ہے تو دوسری طرف اسے پاکستان کے ساتھ سی پیک میں بھی پارٹنر بنا رہا ہے اور یہ وہ اہم قدم ہے جس کے دور رس اثرات سامنے آئیں گے۔ خاص کر وسطی ایشیا کے ساتھ جڑنے کا وہ خواب شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے جس کے نتیجے میں ایک مضبوط معاشی بلاک وجود میں آسکتا ہے۔ پاکستان میں سی پیک پر تیزی سے کام جاری ہے اور اب یہ انتہائی اہم مرحلے میں ہے۔ یہاں یہ امر قابل اطمینان ہے کہ افغانستان ، چین اور پاکستان کی حکومتوں کے درمیان قریبی روابط استوار ہیں اور گزشتہ دنوں یہاں پر جو وزراءخارجہ اجلاس ہوا تھا اس میں اہم اقدامات پر رضامندی کا اظہار کیا گیا تھا اور تینوں ممالک اس پر متفق تھے کہ ترقی اور خوشحالی کے سفر میں خطے کے ممالک کا قریبی روابط جاری رہیں گے۔