ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرایکٹ کیا ہے؟


صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے دستخط کے بعد سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈر بل 2023 قانون بنا تھا جس کے بعد آرٹیکل 184/3کے تحت دیے گئے فیصلوں پر نظر ثانی درخواست دائر کرنے کا حق دیا گیا تھا۔

حکومت کی جانب سے جاری کردہ نوٹی فکیشن کے مطابق ڈاکٹر عارف علوی نے 26 مئی کو مذکورہ بل پر دستخط کردیے جس کے بعد یہ قانون کی حیثیت اختیار کرگیا۔

مذکورہ بل 14 اپریل کو قومی اسمبلی سے منظور ہونے کے بعد 5 مئی کو سینیٹ سے بھی منظور کرلیا گیا تھا۔

اس نئے قانون کے تحت آرٹیکل 184/3کے تحت کیے گئے فیصلوں پر 60 دن میں نظر ثانی اپیلیں داخل کی جاسکیں گی اور فیصلہ دینے والے بینچ سے بڑا بینچ اپیل کی سماعت کرے گا۔

سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ کی 7 شقیں ہیں، شق ایک کے تحت ایکٹ ’سپریم کورٹ(ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز) ایکٹ 2023 کہلائے گا، شق دو کے تحت سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار مفاد عامہ کے مقدمات کی نظر ثانی کے لیے بڑھایا گیا اور مفاد عامہ کے مقدمات کی نظر ثانی کو اپیل کے طور پر سنا جائے گا۔

شق تین کے مطابق نظر ثانی کی سماعت کرنے والے بنچ میں ججز کی تعداد مرکزی کیس سے زیادہ ہو گی، شق 4 کے مطابق نظر ثانی میں متاثرہ فریق سپریم کورٹ کا کوئی بھی وکیل کر سکے گا۔

شق 5 کے تحت ایکٹ کا اطلاق آرٹیکل 184 تین کے پچھلے تمام مقدمات پر ہو گا، شق 6 کے تحت متاثرہ فریق ایکٹ کے اطلاق کے 60 دنوں میں اپیل دائر کر سکے گا، شق 7 کے مطابق ایکٹ کا اطلاق ملتے جلتے قانون، ضابطے، یا عدالتی نظیر کے باوجود ہر صورت ہو۔

حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ اس بل کا مقصد سپریم کورٹ کو فیصلوں اور احکامات پر نظرثانی کے اختیارات کے استعمال میں سہولت فراہم کرنا ہے، تاہم اپوزیشن نے قانون کو مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کی نااہلی ختم کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا۔

یاد رہے کہ عدالت عظمیٰ کا یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب کہ گزشتہ روز وزیر اعظم شہباز شریف کہ نواز شریف آئندہ ماہ پاکستان واپس آئیں گے تاہم انہوں نے ان کی واپسی کی متعین تاریخ نہیں بتائی تھی۔