سردی بہار کو کھا گئی ہے 

فروری بہار کا مہینہ ہوتا ہے اس ملک میں 14 فروری سے یہ ماہ شروع ہو جاتا تھا پر اب کی دفعہ بہار کے مہینے کو موسم سرما کھا گیا کیونکہ فروری کے آخری دنوں میں اتنا پالا پڑا جو ماضی قریب میں کبھی بھی نہ پڑا تھا ملک میں تا دم تحریر موسم تو سرد ہے پر اس کے برعکس سیاسی ٹمپریچر کافی اونچا ہے سیاسی پارٹیوں کے رہنما ایک دوسرے کے بدستور لتے لے رہے ہیں جس سے ملک کی سیاسی فضامیں ہیجانی کیفیت ہے اتنی مبالغہ آ رائی ہو رہی ہے کہ خدا کی پناہ تمام پارٹیوں کے قائدین نے عوام کو اتنے سبز باغ دکھائے ہیں اور ان کو مالی مراعات دینے کے اتنے بلند و بانگ دعوے کئے ہیں کہ یہ بات سیاسی مبصرین کی سمجھ سے باہر ہے کہ ان کو پورا کرنے کے واسطے ان کے پاس پیسے کہاں سے آئیں گے کیونکہ ملک کا خزانہ تو خالی ہے اور سر کے بال سے لے کر پاو¿ں 
کے انگوٹھے تک ہم غیر ملکی قرضوں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ ہم کئی برسوں سے دیکھتے آ رہے ہیں کہ جب بھی ذرا تیز بارش ہوتی ہے تو کئی شہروں کی سڑکیں نہروں میں تبدیل ہو جاتی ہیں اور رہائشی علاقوں میں بھی بارش کا پانی داخل ہو جاتا ہے اس عمل سے کروڑوں روپے کا انفرا سٹرکچر ہر سال ٹوٹ پھوٹ جاتا ہے افسوس کی بات ہے کہ میونسپل اداروں نے کبھی بھی ماضی سے سبق نہیں 
سیکھا اور وہ اقدامات بروقت نہیں اٹھائے کہ جن کے اٹھانے سے سیلابی قسم کے پانی سے فزیکل انفرا سٹرکچر کو بچایا جا سکتا ہے۔ خدا کرے کہ اس الیکشن کے توسط سے جو افراد اور سیاسی پارٹیاں بر سر اقتدار آئی ہیں وہ ڈلیور کریں اور عوام کی امنگوں اور توقعات پر پوری اتریں‘ تمام مکاتب فکر کے سیاست دانوں اور ان کی جماعتوں کو برداشت اور افہام و تفہیم کا مظاہرہ کرنا ہوگا ورنہ آنے والا مو¿رخ ان کو کبھی بھی معاف نہیں کرے گا ان کو اس بات کا احساس بھی ہونا چاہئے کہ اگر خدا نخواستہ یہ ملک ہی باقی نہ رہا تو پھر وہ سیاست کہاں کریں گے لہٰذا ان سب کو ایسی کوئی حرکت نہیں کرنی چاہئے کہ جس سے ملک کی بقا داﺅ پر لگ جائے۔ ان کلمات کے بعد چند دیگر اہم قومی 
اور عالمی معاملات پر ایک طائرانہ نظر ڈالنا بے جا نہ ہوگا۔ 84سالہ ایرانی سپریم لیڈر علی خامنائی جو 1989ءسے اپنے منصب پر فائز ہیں ریٹائر ہونے والے ہیں اور ان کی جگہ ان کے جانشین کا انتخاب کر لیا گیا ہے پر ان کا نام صیغہ راز میں رکھا جا رہا ہے خدشہ یہ ہے کہ کہیں اسرائیل ان کی جان پر حملہ نہ کردے خامنائی صاحب امام خمینی صاحب کے دست راست رہے ہیں اور ان کی وفات کے بعد انہوں نے انقلاب ایران کے ثمرات عام آ دمی تک پہنچانے میں کافی محنت سے اپنے فرائض منصبی ادا کئے ہیں روس نے یکم مارچ سے 6 ماہ کے واسطے اپنے پٹرول کی برآمدات پر جو پابندی لگائی ہے اس سے ظاہر ہے کہ جو ممالک روسی پٹرول پر اپنی توانائی کی ضروریات پورا کرنے کے لئے تکیہ کر رہے تھے کو تکلیف کا سامنا کرنا پڑے گا۔