وطن عزیز گل گلزار بن سکتاہے

حالیہ الیکشن کے بعد اب نو منتخب حکومتوں کے امتحان کا وقت شروع ہو چکا ہے اگر تو ان کو ملک کی ڈوبتی ہوئی معیشت کا خیال ہے تو جو پہلا کام ان کو کرنا ہوگا وہ یہ ہے کہ وزارتوں کا حجم نہایت کم کرنا ہوگا ‘ایک وزیر کو ایک وزارت کے بجائے زیادہ وزارتیں حوالہ کرنی ہوں گی‘ سر دست ان کے واسطے کوئی نئی گاڑی نہ خریدی جائے وہ پہلے سے موجود ٹرانسپورٹ سے کام چلائیں اور نئی گاڑیوں کی ضرورت پڑنے پر چھوٹی گاڑیوں کو خریدا جائے بالکل اسی سائز کی کہ جو ہمسایہ ممالک میں وزرا ءکے زیر استعمال ہیں‘ وزراءہوں یا کہ سنیئر سرکاری افسر‘ ان کے غیر ضروری بیرونی دوروں پر مکمل پابندی لگا دی جائے ‘آڈٹ کے موجودہ نظام کو ری وزٹ کیا جائے کیونکہ سرکاری محکموں کو چلانے کے واسطے ان کے سربراہان وزرات خزانہ سے جو بجٹ منظور کرواتے ہیں ان کے استعمال میں شفافیت نہیں ہوتی جو سرکاری افسر سرکاری گاڑیاں رکھنے کے مجازنہیں ان کو گاڑیوں کی جگہ روزانہ دفتر آنے جانے کے واسطے ایک رقم ان کو تنخواہ کے ساتھ شامل کر کے بطور ٹرانسپورٹ الاﺅنس دے دی جائے‘ اپنے شہر سے باہر دوروں پر جانے کیلئے ان کو علیحدہ ٹی اے‘ ڈی اے ویسے ہی مل رہا ہے‘ ان اقدامات سے ہر ماہ ایک اچھی خاصی رقم بچائی جا سکتی ہے۔ اس حقیقت سے تو کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ ملک میں زرعی اصلاحات کی اشد ضرورت ہے صحت عامہ پبلک ٹرانسپورٹ اور تعلیم کے شعبوں میں من و عن وہ نظام وطن عزیز میں نافذ کر دیا جائے جو انگلستان یا Scandinavianممالک میں لاگو ہے‘ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کرنے کے لئے پیسہ کہاں سے آ ئے گا تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ پیسہ ملک کے ان سرمایہ داروں پر ٹیکس لگا کر وصول کیا جا سکتا ہے جو محل نما بنگلوں میں رہتے ہیں جن کے بنگلوں میں کروڑوں روپوں کی مالیت کی کئی کئی لگژری گاڑیاں کھڑی ہوتی ہیں‘ جن کے بال بچے بیرون ملک تعلیم حاصل کر رہے ہوتے ہیں یا ملک کے اندر ان تعلیمی اداروں میں پڑھ رہے ہوتے ہیں کہ جن کی فیس ڈالروں میں ادا کی جاتی ہے اور وہ ہر سال سیر سپاٹے کے واسطے یورپ اور امریکہ یا امارات کا رخ کرتے ہیں ‘ان کے یہ تمام اخراجات دستاویزی یعنی documented ہیں اور بغیر کسی مزید انکوائری کے ان کی بنیاد پر ان پر ٹیکس لاگو کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح ملک میں فوری طور پر انتخابی اصلاحات کی بھی ضرورت ہے تاکہ نہ صرف موروثیت پر مبنی سیاست ختم کی جا سکے‘ انٹرا پارٹی الیکشن میں پارٹی کے اندر موجود قابل لوگوں کو بھی موقع مل سکے کہ وہ آگے آ سکیں‘ نیز عوام کو یہ پتہ بھی لگ سکے کہ وہ کون لوگ ہیں جو مختلف سیاسی جماعتوں کو فنڈ فراہم کر رہے ہیں‘ ان کا ذریعہ معاش کیا ہے اور انہوں نے کتنی رقم پارٹی فنڈ میں جمع کرائی ہے ‘سول سروس میں بھرتی کے واسطے صرف اور صرف پبلک سروس کمیشن کے ذریعے اسی قسم کا نظام وضع کیا جائے جو1965ءتک اس ملک میں چلتا تھا اور جس کے ذریعے ایسے افراد اس ملک کی بیوروکریسی میں آئے کہ جنہوں نے خوب اچھا نام کمایا ‘سول سروس میں اگر معاشرے کے بہترین لوگ آئیں گے تو یہ ملک گل گلزار بن سکتا ہے ۔اب ذکر کرتے ہیں چند دیگر اہم معاملات کا کہ جو آج کل عوام کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں ‘نئی حکومتوں کے قیام کے ساتھ ہی مرکز اور صوبوں میں کلیدی عہدوں پر سرکاری ملازمین کی تعنیاتی کا عمل شروع ہو گا‘ ماضی سے سبق لے کر ارباب اقتدار کو فیلڈ پوسٹنگز خصوصاً ڈپٹی کمشنرز ڈی آئی جی اور ایس پی کے عہدوں پر تقرریوں میں نہایت احتیاط برتنی ہو گی اور اس ضمن میں کسی ایم این اے‘ ایم پی اے وغیرہ کی سفارش پر کوثءپوسٹنگ کرنے سے احتراز کرنا ہو گا اس سلسلے میں افسران کی سینیارٹی کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا ہو گا بہتر تو یہ ہوگا کہ یہ کام ہر صوبے کے چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس کے حوالے کر دیا جائے اور ان پر وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ یہ واضح کر دیں کہ اگر انہوں نے ان کی تقرری میں میرٹ کا دامن چھوڑا تو وہ ان کے خلاف تادیبی کاروائی کریں گے۔