خارجہ حکمت عملی

نئے وزیراعظم پاکستان کا یہ عزم قابل ستائش ہے کہ پاکستان کسی گریٹ گیم کا حصہ نہیں بنے گا اور یہ کہ وہ سی پیک کو آگے بڑھائے گا‘ ان کا یہ کہنا بھی بجا ہے کہ ہمسایہ ممالک سے مضبوط تعلقات استوار کئے جائیں گے۔
ہماری وزارت خارجہ کی ترجیحات درج ذیل ہونی چاہئیں‘ پہلی بات تو یہ ہے کہ متحرک قسم کی سفارت کاری سے ایران اور افغانستان دونوں کو یہ باور کرایا جائے کہ جب تک پاکستان سے مل کر وہ یک جان دو قالب کی پالیسی نہیں بنائیں گے کہ جس کی ایک صورت ان تینوں ممالک کی کنفیڈریشن کا قیام ہے‘ سپر پاورز اس خطے میں گریٹ گیم کھیلنے سے باز نہیں آئیں گی ۔
آج یقینا ذوالفقار علی بھٹو جیسے پائے کے لیڈر کی کمی محسوس کی جا رہی ہے کہ جنہوں نے 1974 ءمیں لاھور میں مسلم ممالک کے لیڈروں کو جمع کیا تھا ‘ وہ اگر زندہ رہتے تو عین ممکن تھا کہ جس کنفیڈریشن کا ہم نے ذکر کیا ہے اس کا قیام عمل میں آ جاتا اگر مندرجہ بالا تین ممالک آپس میں ایکا کر لیتے ہیں تو یقین مانئے کوئی سپر پاور اس خطے میں گریٹ گیم نہیں کھیل سکے گی اور سب سے بڑی بات یہ ہوگی کہ اس علاقے کی دہشت گردی کے واقعات سے جان چھوٹ جائے گی ‘بعد میں ترکی کو بھی اس کنفیڈریشن کا حصہ بنانے کی سعی کی جا سکتی ہے ۔
امریکہ کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ نہ اس کی دوستی اچھی ہے اور نہ دشمنی ‘اس کے ساتھ دو طرفہ بنیادوں پر دوستانہ تعلقات رکھنے ضروری ہوں گے جس بات سے ہمیں ہر وقت بیدار رہنا چاہیے وہ یہ ہے کہ امریکہ یہ کوشش کرے گا کہ کسی نہ کسی طریقے سے پاکستان اور روس اور پاکستان اور چین کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرے لہٰذا پاکستان ہر اس قدم سے احتراز کرے کہ جو اس ضمن میں کسی غلط فہمی کا سبب بنے۔
 سیاسی مبصرین کو اس بات کاخدشہ ضرور ہے کہ واضح مختلف سیاسی نظریات کے پیش نظر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان چپقلش اگر زور پکڑ لیتی ہے تو اس سے ہو سکتا ہے ملک میں کہیں پارلیمانی جمہوریت کی بساط ہی الٹ نہ جائے لہٰذا تمام سیاسی سٹیک ہولڈرز کو برداشت اور دور اندیشی کا مظاہرہ کرنا ہوگا ‘افغان طالبان کی کالعدم ٹی ٹی پی کو پاکستان میں حملوں پر وارننگ اچھا عمل ہے پر اس وارننگ کو عملی جامہ پہنانے کی بھی ضرورت ہے کیونکہ ماضی میں بھی اس قسم کی وارننگز دی گئی تھیں جو صدا بصحرا ثابت ہوئی ہیں۔
 رمضان المبارک کی آمد آمد ہے ‘ تاجروں کی حسب معمول چاندی ہو گئی ہے ‘ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ از خود رضاکارانہ طور پر تمام اشیائے خوردنی خصوصاً ان اشیاءکی قیمتوں میں پچاس فیصد کمی کر دیتے کہ جن کی اس مقدس ماہ میں کھپت زیادہ ہو جاتی ہے تاکہ غرباءاور مساکین پر مالی بوجھ کم ہو جاتا کہ جس طرح یورپ کے کئی ممالک میں کرسمس اور ایسٹر کے موقعوں پر وہاں کے تاجر از خود رضاکارانہ طور پر اشیائے صرف کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی کر دیتے ہیں تاکہ غرباءو مساکین بھی یہ فریضہ بہ آ سانی ادا کر سکیں ۔آج کل مرکز اور صوبوں میں وزارتوں کی تشکیل کا عمل جاری ہے اس بات کو بار بار حکومتوں کے گوش گزار کرانے میں کوئی قباحت نہیں کہ وہ وزارتوں کو ریوڑیوں کی طرح تقسیم نہ کریں کہ سرکاری خزانہ خالی ہے اور ملک اب بھاری اخراجات کا متحمل نہیں ہو سکتا‘ ایک وزیر کو ایک سے زیادہ وزارتوں کے قلمدان حوالے کئے جائیں قوم اس مشکل مالی حالات میں اپنے سیاسی رہنماﺅں سے اخراجات پر کنٹرول کرنے کی امید رکھتی ہے ‘ اسی طرح اسمبلیوں کے تمام اراکین بھلے وہ مرکز میں ہوں یا صوبوں میں اسراف سے پرہیز کریں ‘قوم ان کے کردار کو بڑے غور سے اب کی دفعہ دیکھے گی اور اگر انہوں نے وہی لچھن دکھائے کہ جن کا مظاہرہ وہ ماضی میں کرتے آئے ہیں تو آئندہ الیکشن میں قوم پھر ان کو اہمیت نہیں دے گی ۔