قیادت کی ذمہ داریاں 

 چین کی سوچ تقسیم کی بجائے جامع اور مربوط ترقی پر مبنی ہے جس میں طبی‘ سیاسی اور فلسفیانہ روایات کو پیش نظر رکھا جاتا ہے یقیناً چین کی تاریخ اور سوچ مختلف خصوصیات کا مجموعہ ہے لیکن اِن سب کا محور و مرکز ”ہم آہنگی“ ہے جو طویل مدتی کامیابی کی شرط ہے۔ جب یہ ہم آہنگی نہیں رہتی اور پالیسیوں کو تقسیم کر دیا جاتا ہے تو قلیل مدتی کامیابیوں میں اضافہ نہیں ہوتا جیسا کہ چین کی تاریخ میں اکثر دیکھا بھی گیا۔امریکہ پاکستانی حکومتوں کو گھٹنے ٹیکنے اور ہچکچاہٹ کے ساتھ تعاون کرنے پر مجبور کرتا ہے اور اپنی بات منوانے کے لئے پابندیاں بھی عائد کرتا ہے۔ چین کی حکمت عملی یہ ہے کہ وہ پاکستان کے عوام کے لئے مشترکہ خوشحالی اور سلامتی کے امکانات میں سرمایہ کاری کرے اور اِس سے بھرپور یعنی نسبتاً زیادہ فائدہ اُٹھائے۔ پاکستان کی حکمران اشرافیہ کے عدم اعتماد کے باوجود اسے امریکہ پر نسبتاً برتری حاصل ہے‘ جو بہتر حکمت عملی کا مظاہرہ ہے۔ پاکستان کی پالیسیاں‘ چاہے وہ بیرونی ہوں یا داخلی‘ قلیل مدتی ہوتی ہیں جو کبھی بھی مربوط اور کامیاب طویل مدتی پالیسی میں نہیں ڈھل سکتیں۔ اِسے ”اسٹریٹجک عدم ہم آہنگی“ بھی کہا جا سکتا ہے اور اِس کی وجہ یہ ہے کہ ریاستی امور میں یا تو گڈ گورننس غائب ہے یا پھر ایسے حالات ہیں جس میں اسٹریٹجک قیادت خواہشات کا پیچھا کرتے ہوئے
 حقیقت سے دور ہے۔ معاشی طور پر‘ پاکستان نے بیرونی طور پر منظم معیشت پر انحصار کیا ہے جس کی بنیاد اعداد و شمار ہیں اور اگر یہی حکمت عملی برقرار رکھی گئی تو اِس سے عوام کے لئے طویل مدتی استحکام‘ سلامتی اور خوشحالی آنے کے امکانات زیادہ نہیں ہوں گے۔ اس غیر رسمی معیشت نے اب تک نچلی سطح کی متوازن معیشت کو جنم دیا ہے لیکن یہ بھی زیادہ دیر تک نہیں رہے گی کیونکہ پاکستان کے نوجوان اور غریب طبقے کی سوچ میں تبدیلی آئی ہے۔ ان کمزوریوں نے پاکستان کی خارجہ پالیسی‘ قومی سلامتی اور پالیسیوں سمیت قومی پالیسیوں کے ہر پہلو کو متاثر کر رکھا ہے۔ بنیادی طور پر غیر ترقی یافتہ معیشت پر مبنی قومی فیصلہ سازی کی جاتی ہے اور حکمران اشرافیہ کی طرف سے اصلاح‘ معاشی از سر نو تشکیل اور ترقی پر زیادہ دھیان نہیں دیا جاتا جس کی وجہ سے قومی پالیسیوں کے نقصانات میں اضافہ ہوا ہے۔ ان حالات میں ریاست سازی اور حکمت عملی پر بحث محض فکری تفریح بن جاتی ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ پاکستان آج جس مقام پر کھڑا ہے اِس سے کہاں جائے گا یعنی اِس کا مستقبل (منزل) کیا ہے؟ نئی منتخب حکومت نے مختلف شعبوں کے ماہرین کی جانب سے تیار کردہ انتخابی وعدے کر رکھے ہیں جن پر عمل درآمد ماضی کی طرح ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ کی طرح خود کو الگ کئے ہوئے ہے لیکن جیسا کہ برطانوی فلسفی اے سی گریلنگ نے کہا تھا کہ ”اگر ہر صفحے کا متن ایک ہی ہو تو کتاب کا صرف ایک صفحہ ہوتا ہے جسے آپ جتنی بار چاہیں پلٹ سکتے ہیں لیکن یہ وہی رہتا ہے۔“کسنجر نے اپنی آخری کتاب ’دی ایج آف آرٹیفیشل انٹیلی جنس‘ میں کہا ہے کہ آنے والے وقت میں کس طرح مصنوعی ذہانت ریاست سازی اور اسٹریٹجک پالیسی کے پیرامیٹرز کو یکسر تبدیل کر دے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت ”غیر انسانی ذہانت کو انسانی سرگرمی کے بنیادی تانے بانے میں ضم کر رہی ہے۔ فیصلہ سازی انسانی سوچ کے مقابلے میں تیز رفتاری سے ہوگی اور فیصلہ سازی میں ضم ہونے والی معلومات انسانی دماغ کی رفتار سے کئی گنا زیادہ ہوگی اور مصنوعی ذہانت کی مدد سے نیٹ ورک پلیٹ فارمز انسانی فیصلہ سازی سے آگے نکل جائیں گے۔“ کیا اس قسم کی ترقی جنگ کا باعث بنے گی اور کیا یہ بین الاقوامی برادری کو غیر انسانی انٹیلی جنس کے غلط استعمال کے ذریعے انسانی تہذیب کے خاتمے کو روکنے کے لئے متحد
 ہونے کے قابل بنائے گا؟ یہ بات سابق امریکی وزیر دفاع نے ”نامعلوم“ قرار دی تاہم غور طلب بات یہ ہے کہ پاکستان سمیت ہر ملک کو اس طرح کی اجتماعی وجودی کوششوں میں اپنا کردار ادا کرنا ہے۔آخر میں یہ کہ پاکستان کو ریاستی اور اسٹریٹجک قیادت کی کیا ضرورت ہے؟ کسی بھی ریاست یا حکمت عملی کو قابل قبول بنانے کے لئے سب سے پہلے اُس کا قابل عمل ہونا ضروری ہوتا ہے۔ نو منتخب حکومت کو عوام سے کئے گئے وعدوں پر سختی سے عمل کرنا چاہئے اور اِس سلسلے میں کوئی بھی عذر پیش نہیں کیا جانا چاہئے۔ انتخابی وعدوں کو مقررہ وقت پر مکمل ہونا چاہئے۔ وزیر اعظم کو قومی ٹیلی ویژن اور دیگر ذرائع ابلاغ کے ذریعے کے قوم کو باقاعدگی سے ترقیاتی پیش رفت سے آگاہ کرنا چاہئے۔ اسی طرح انہیں ٹی وی پر میڈیا مبصرین‘ ماہرین‘ اسکالرز‘ خواتین‘ اساتذہ سمیت متعلقہ شعبوں کے ماہرین سے رابطہ کرنا چاہئے تاکہ انہیں اپنے وعدے پورے کرنے میں کامیابی مل سکے اور وہ اِس سلسلے میں پیش رفت کا جائزہ لے سکیں۔ پاکستان کو ٹیکس اصلاحات کی ضرورت ہے کیونکہ دس فیصد امیر ترین خاندان اور کاروباری ادارے قومی آمدنی کا بڑا حصہ ہڑپ کر رہے ہیں تاکہ غریب و متوسط 90 فیصد آبادی کے لئے بنیادی ضروریات اور خدمات کی فراہمی یقینی بنائی جاسکے۔(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر اشرف جہانگیر قاضی۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)


 اگر ٹیکس اصلاحات کر لی گئیں تو اس سے پاکستان کو قرضوں سے نجات بھی دلائی جا سکے گی اور آئی ایم ایف کے اسٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ پروگراموں اور غیر ملکی سرمایہ کاری سے بچا جا سکے گا۔ (مضمون نگار امریکہ بھارت اور چین میں بطور سفارتکار پاکستان کی نمائندگی کر چکے ہیں جبکہ عراق اور سوڈان میں اقوام متحدہ مشنز کے سربراہ رہے ہیں۔